00:01اسلامی لائبریری انلائٹننگ اپاوٹ ریلیجن
00:05صوفیاء اکرام کے اوساف حمیدہ
00:11حضرت زنون مصری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
00:15صوفی وہ ہے کہ جب بات کرے تو اس کا بیان اپنے حال کے حقائق کے اظہار میں ہو
00:22مطلب یہ کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کہتا جو خود اس میں موجود نہ ہو
00:27اور جب خاموش رہے تو اس کا معاملہ اور سلوک اس کے حال کو ظاہر کر دے
00:33اور علائق سے کنارہ کشی اس کے حال پر ناتک ہو
00:37یعنی اس کا بولنا بوقت کلام اصول طریقت پر صحیح ہو
00:42اور اس کا کردار بوقت سکوت مجرد محض ہے
00:46اور یہ دونوں تحالتیں درست ہیں
00:48جب بولے تو اس کی ہر بات حق ہو
00:53اور جب خاموش رہے تو اس کا ہر فعل فقر ہو
00:57حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
01:01تصوف ایسی خوبی ہے جس میں بندے کو قائم کیا گیا ہے
01:05کسی نے پوچھا یہ حق کی صفت ہے یا بندے کی
01:08آپ نے فرمایا اس کی حقیقت حق کی صفت ہے
01:12اور اس کی ظاہری رسم و حالت بندے کی صفت ہے
01:16مطلب یہ ہے کہ اس کی حقیقت بندگی کی صفت کی فنا چاہتی ہے
01:21اور صفت بندگی کی فنا
01:23حق کے ساتھ بقا کی صفت ہے
01:26اور یہ صفت حق ہے
01:27اور اس کی ظاہری رسم و حالت
01:30بندے کی دائمی ریاضت اور مجاہدے کی متقاضی ہے
01:33اور یہ دائمی مجاہدہ
01:36یہ بندے کی صفت ہے
01:37اور جب دوسرے معنی میں دیکھنا چاہو
01:40تو یوں سمجھو
01:41کہ توحید کی حقیقت کسی بندے کی صفت میں
01:43صحیح نہیں ہو سکتی
01:45اس لیے کہ بندے کی صفات میں
01:47ہمیشگی دوام نہیں
01:49اور خلق کے صفت
01:51بجز رسم و ظاہر کے کچھ نہیں
01:53کیونکہ خلق کے صفت میں
01:55بقا نہیں ہے
01:56بلکہ وہ حقیقت حق کا فعل ہے
01:58لہٰذا ان صفات کی حقیقت
02:01حق کے ساتھ ہوگی
02:03اس مفہوم کو یوں سمجھو
02:05کہ حق تعالیٰ نے
02:06بندے کو
02:08روزے رکھنے کا حکم فرمایا
02:10روزہ رکھنے کی وجہ سے
02:12بندہ روزہ دار کہلائیا
02:13یہ روزہ دار
02:15عزروے رسم ظاہر
02:17ہر بندہ کی صفت ہوگی
02:19لیکن عزروے حقیقت
02:21روزے کی حقیقت
02:22حق تعالیٰ کے ساتھ ہے
02:24چنانچہ حق تعالیٰ نے
02:25اپنے حبیب
02:26صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
02:28کے ذریعے ہمیں خبر دی
02:30کہ روزہ میرے لیے ہے
02:32اور میں ہی اس کی جزا دوں گا
02:34مطلب یہ ہے
02:36کہ روزہ میری وجہ سے ہے
02:37اور جو کچھ
02:39ان کے مفعولات سے ہے
02:40وہ سب اس کی ملکیت ہے
02:42لیکن تمام عبادتوں
02:44اور چیزوں کے نسبت
02:45بندے کے نسبت
02:47بطری کے رسم و مجاز ہوگی
02:49نہ کہ حقیقتا
02:50حضرت عبو الحسن نوری
02:53رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
02:55تصوف تمام نفسانی لذات و حضوظ
03:01سے دستکشی کا نام ہے
03:03اس کی دو قسمیں ہیں
03:05ایک رسم
03:06یعنی مجاز
03:07اور دوسری حقیقت
03:09اس کا مفہوم یہ ہے
03:11کہ بندہ اگر نفسانی لذتوں کو چھوڑ چکا ہے
03:14تو ترکِ لذت بھی تو ایک لذت ہے
03:16اسی کو رسم مجاز کہا جاتا ہے
03:19اور اگر وہ اس کا بھی تارک ہے
03:21تو یہ فنائے لذت و حض کہلاتی ہے
03:24اس معنی کا تعلق حقیقت و مشاہدے سے ہے
03:27لہٰذا ترکِ حض و لذت
03:30بندہ کا فیل ہے
03:31اور فنائے حض و لذت
03:33حق تعالیٰ کا فیل ہے
03:35لہٰذا بندے کے فیل کو
03:37رسم و مجاز
03:38اور حق کے فیل کو حقیقت کہا جائے گا
03:41اس کال سے
03:42وہ پہلا کال
03:43جو حضرت جنید بغدادی رحمت اللہ علیہ کا ہے
03:46خوب واضح ہو جاتا ہے
03:48حضرتِ عبو الحسن نوری رحمت اللہ علیہ کا ہی
03:52ایک اور مقام پر کال ہے
03:53صوفیاء کرام کا گروہ وہ ہے
03:57جن کی زندگیاں قدورتِ بشری سے آزاد
04:00اور آفتِ نفسانیہ سے پاک و صاف ہو کر
04:03آرزو اور تمناوں سے بے نیاز ہو گئی ہیں
04:06یہاں تک
04:07کہ حق تعالیٰ کی حضور
04:09بلند درجے
04:10اور صفتِ اول میں آرام گستر ہیں
04:12اور ما سواء اللہ کے
04:14سب سے قطعن کنارہ کش ہو چکے ہیں
04:17وہ یہ بھی فرماتے ہیں
04:19کہ صوفی وہ ہے
04:21جس کے قبضہ میں کچھ نہ ہو
04:23اور نہ خود کسی کے قبضہ میں ہو
04:25یہ عبارت این فنا کی ہے
04:28فانی و صفت نہ مالک ہوتا ہے
04:30نہ مملوک
04:31کیونکہ صحت
04:32ملکِ موجودات پر درست آتی ہے
04:35اس قول شریف کا مطلب یہ ہے
04:37کہ صوفی دنیاوی ساز و سامان
04:40اور اخروی زیب و زینت میں سے
04:42کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا
04:44کیونکہ وہ خود بھی تو کسی کی ملکیت میں ہیں
04:47وہ اپنے نفس کے حکم کا پابند نہیں ہوتا
04:50اس لیے
04:51کہ غیر کی خواہش اور ارادہ کے غلبہ سے
04:54وہ خود کو گھلا چکا ہوتا ہے
04:56حتی کہ وہ غیر کو بھی بندگی کی تمہ سے فنا کر چکا ہوتا ہے
05:01یہ قول مبارک
05:02دقیق اور لطیف ہے
05:03اس منزل کو گروہِ صوفیاء
05:06فنائے کل سے تعبیر کرتے ہیں
05:08ہم ان کے غلط مقامات کی
05:10اس کتاب میں انشاءاللہ نشاندہی کریں گے
05:14حضرت
05:15ابن جلالی دمشقی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
05:20تصوف سراپہ حقیقت ہے
05:24جس میں رسم و مجاز کا دخل نہیں ہے
05:27کیونکہ معاملات و افعال میں
05:29رسم و مجاز کا دخل ہے
05:31اور اس کی حقیقت حق تعالیٰ کے ساتھ ہے
05:34جبکہ تصوف خلق سے کنارہ کشی کا نام ہے
05:38تو اس کے لیے رسم و مجاز کا دخل ممکن ہی نہیں
05:41حضرت
05:43ابو عمر دمشقی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
05:46جہان کو نقص و عیب کی آنکھ سے دیکھنے کا نہیں
05:52بلکہ دنیا سے مو پھیرنے کا نام تصوف ہے
05:56مطلب یہ ہے
05:57کہ جہان کو عیب و نقص سے بھرپور دیکھو
06:00کیونکہ یہ دلیل بقائے صفت کی ہے
06:03بلکہ جہان سے آنکھوں کو بند کر لو
06:06کیونکہ یہ دلیل فنائے صفت کی ہے
06:08اس لیے کہ جب کائنات پر نظر ہو گئی
06:12تو حد نظر کے بعد نظر کی منزل بھی ختم ہو جائے گی
06:15اور دنیا سے آنکھیں بند کر لینے میں
06:18ربانی بصیرت کی بقا ہے
06:20یعنی وہ شخص
06:22اپنے سے نابینا ہوگا
06:24وہ حق کو دیکھ سکے گا
06:26کیونکہ ہستی کا طالب بھی
06:27طالب ہی ہوتا ہے
06:29اور اس کا کام اسی سے اسی کی طرف ہو جاتا ہے
06:32حتیٰ کہ
06:33اپنے ہستی سے باہر نکلنے کی
06:36اسے کوئی راہ نہیں ملتی
06:38حضرت ابو بکر شبلی رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
06:42تصوف میں شرک ہے
06:43اس لیے کہ دل کو غیر کی رویت سے بچانا
06:46حالکہ غیر کا وجود ہی نہیں ہے
06:49مطلب یہ
06:50کہ اس بات توحید میں غیر کی رویت شرک ہے
06:53جب دل میں غیر کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے
06:56تو دل کو غیر کے ذکر سے بچانا محال ہے
07:00حضرت حسری رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں
07:04دل کو مخالفت کی قدورت سے پاک و صاف رکھنے کا نام تصوف ہے
07:10مطلب یہ
07:12کہ باطن کو
07:14حق تعالیٰ کی مخالفت سے محفوظ رکھو
07:16کیونکہ دوستی موافقت کا نام ہے
07:19اور موافقت مخالفت کی زد ہے
07:22دوست کو لازم ہے
07:24کہ سارے جہان میں دوست کے احکام کی حفاظت کرے
07:28اور جب مطلب و مراد ایک ہو
07:30تو مخالفت کی کوئی گنجائش نہیں ہے
07:34اخلاق
07:35حضرت محمد بن علی بن امام حسین بن علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ
07:42فرماتے ہیں
07:45پاکیزہ اخلاق کا نام تصوف ہے
07:49جس کے جتنے پاکیزہ اخلاق ہوں گے
07:52وہ اتنا ہی زیادہ صوفی ہوگا
07:54پاکیزہ اخلاق کی دو قسمیں ہیں
07:57ایک حق تعالیٰ کے ساتھ
07:59اور دوسری خلق کے ساتھ
08:01حق تعالیٰ کے ساتھ نیک خوئی یہ ہے
08:03کہ اس کی قضاء و قدر پر راضی رہے
08:06اور خلق کے ساتھ نیک خوئی یہ ہے
08:09کہ حق تعالیٰ کی رضا کی خاطر
08:11مخلوق کی صحبت کا بار برداشت کرے