ایک چھوٹے سے گاؤں میں احمد نام کا لڑکا رہتا تھا۔ نرم دل، مسکراہٹ والا، مگر خود مشکلات میں گھرا ہوا۔ اس کے گھر کے حالات اچھے نہیں تھے، لیکن پھر بھی جس کے ہاتھ میں دکھ دیکھتا، فوراً مدد کے لیے آگے بڑھ جاتا۔
ایک دن گاؤں میں ایک بوڑھی اماں گر گئی۔ سب لوگ گزر رہے تھے مگر کوئی رکنے کو تیار نہیں تھا۔ احمد فوراً دوڑا، انہیں سہارا دیا، اپنے کندھے پر اٹھا کر گھر تک لے گیا، پانی پلایا، اور ان کی دوائی لے کر آیا۔ اماں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔
انہوں نے کہا: "بیٹا، اللہ نے تجھے دوسروں کا سہارا بننے کے لیے پیدا کیا ہے۔"
احمد مسکرا کر بولا: "اماں، میں کچھ نہیں… بس دل نہیں مانتا کہ کوئی تکلیف میں ہو اور میں دیکھتا رہوں۔"
وقت گزرتا گیا۔ لوگ احمد کو "ہمدرد" کہنے لگے۔ اس کی اپنی مشکلات تو پھر بھی قائم تھیں، مگر اس نے کبھی شکایت نہ کی، کیونکہ اس کا ماننا تھا:
"خوشی بانٹنے سے کم نہیں ہوتی، بڑھتی ہے۔"
ایک دن گاؤں کے چند لوگ اس کے پاس آئے۔ انہوں نے احمد کے لیے چھوٹا سا فنڈ اکٹھا کیا تاکہ وہ اپنا کام شروع کر سکے۔ احمد حیران رہ گیا۔
لوگوں نے کہا: "تم نے سب کی مدد کی۔ آج ہماری باری تھی۔"
احمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اور اس دن اسے یقین ہو گیا: "ہمدردی کبھی ضائع نہیں جاتی۔ اللہ کسی نہ کسی دل میں اس کی جگہ بنا دیتا ہے۔"
Be the first to comment