یہ رہی ایک گہری، دل کو چھو لینے والی جذباتی سٹوری — آہستہ آہستہ دل تک اترنے والی، درد اور امید دونوں کے رنگ لیے ہوئے:
---
🌧️ “آخری بار” — ایک جذباتی کہانی
رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ شہر کی سڑکیں بارش سے بھیگی ہوئی تھیں، اور ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ احمد کے ہاتھ میں وہ چھوٹی سی نیلی ڈائری تھی، جو اس نے کبھی زبردستی بھی نہیں کھولی تھی۔ یہ ڈائری اسے آج ہسپتال کے اسٹور روم سے ملی تھی… بالکل وہیں جہاں عائشہ نے اپنی آخری راتیں گزاری تھیں۔
وہ ڈائری پر انگلی پھیرتا ہوا بولا، “کاش… ایک بار اور کہہ پاتا کہ میں تم سے ناراض نہیں تھا…”
صفہ کھولی تو سب سے اوپر ایک جملہ لکھا تھا:
“اگر کبھی میں چلی جاؤں، تو یاد رکھنا… محبت کبھی ناراض نہیں ہوتی، بس انتظار کرتی ہے۔”
ان الفاظ نے احمد کا سینہ جیسے چیر دیا۔
اچانک اس کی یادوں میں واپس وہ دن آیا جب اس نے غصے میں آ کر عائشہ کو گھر سے بھیج دیا تھا۔ عائشہ نے صرف اتنا پوچھا تھا، “احمد، میں نے کیا غلط کیا؟” اور احمد نے بغیر سنے جواب دیا:
“تم چلی جاؤ… مجھے کچھ وقت چاہیے!”
وقت… جو کبھی واپس نہیں آتا۔
ڈائری کی اگلی لائن پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں بھیگ گئیں:
“میں جانتی ہوں وہ وقت اس کے غصے کا نہیں، اس کے خوف کا تھا… لوگ غصہ دکھاتے ہیں، کیونکہ وہ دل میں ٹوٹے ہوتے ہیں۔ میں اس کا انتظار کروں گی… آخری سانس تک۔”
احمد نے ڈائری سینے سے لگا لی۔ “عائشہ… میں ٹوٹا ہوا نہیں تھا، میں بس انا میں بند تھا۔ اور تم… تم مجھے سمجھتی تھیں۔”
کھڑکی کے باہر بارش اور تیز ہوگئی۔ جیسے آسمان بھی اس کے غم کو محسوس کر رہا ہو۔
ڈائری کے آخر میں ایک چھوٹی سی تصویر لگی تھی — دونوں کی شادی والے دن کی۔ نیچے ایک آخری پیغام:
“اگر مجھے کبھی دوبارہ موقع ملا، تو میں اسے بتاؤں گی کہ محبت کبھی سوال نہیں کرتی، بس ساتھ دیتی ہے… چاہے آخری سانس تک ہی کیوں نہ ہو۔”
احمد ٹوٹ گیا۔ زندگی میں پہلی بار اسے احساس ہوا کہ کچھ لوگوں کی کمی کبھی پوری نہیں ہوتی۔ اور کچھ لفظ… کبھی واپس نہیں آتے۔
اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر آہستہ سے کہا: “عائشہ… تم نے آخری سانس تک میرا ساتھ دیا، اور میں… تمہیں آخری بار بھی نہ روک سکا۔”
رات کی خاموشی میں بارش رک گئی، مگر احمد کے اندر کی بارش کبھی نہیں رکی۔
Be the first to comment