ایک گاؤں میں حاجی عبداللہ نام کا ایک زمیندار رہتا تھا۔ اس کے پاس وسیع زمینیں، سینکڑوں مویشی اور درجنوں کسان کام کرتے تھے۔ دولت کی کمی نہ تھی، مگر ایک چیز غائب تھی— دل کا سکون۔
**دولت کے باوجود بےچینی
** ہر سال فصل اچھی ہوتی، گودام بھر جاتے، مگر حاجی عبداللہ کے اندر سے خوشی جیسے ختم ہو چکی تھی۔ اسے یوں لگتا جیسے زمینیں اس کی مالک ہوں، وہ زمینوں کا نہیں۔
ایک دن بارش کے بعد وہ اپنی کھیتوں کا چکر لگا رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ اس کے مزدور اونچی گیلی مٹی میں کمزور جوتیاں پہنے کام کر رہے ہیں جبکہ وہ خود بہترین جوتے، چھتری اور گھوڑے کے ساتھ آیا تھا۔ اچانک ایک مزدور پھسل کر گر گیا۔ اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا:
"مالک! انسان بھی تو کھیت کی طرح ہوتا ہے… اگر اسے وقت پر دیکھ بھال نہ ملے تو خشک ہو جاتا ہے۔"
یہ جملہ سیدھا حاجی عبداللہ کے دل پر لگا۔
بدلاؤ کا آغاز
اس رات وہ دیر تک جاگا رہا۔ اپنی زندگی، اپنی دولت اور اپنے مزدوروں کے حالات سوچتا رہا۔ دل نے پہلی بار کہا: "عبداللہ! کھیت صرف فصلوں سے نہیں چلتے، انسانوں سے بھی چلتے ہیں۔"
اگلے دن اس نے سب مزدوروں کو بلایا۔ کہا:
"آج سے تم صرف میرے لیے کام کرنے والے لوگ نہیں، میرے اپنے ہو۔ تمہارے بچوں کی تعلیم میں میں مدد کروں گا، تمہاری اجرت دگنی ہو گی، اور ہر سال تمہارے لیے کپڑوں اور راشن کا بندوبست بھی میرا ہوگا۔"
مزدوروں کی آنکھوں میں خوشی دیکھ کر اس کا دل کئی برس بعد ہلکا ہوا۔
زمین کا اصل وارث
وقت گزرتا گیا۔ مزدور پہلے سے زیادہ دل جان سے کام کرنے لگے۔ فصلیں پہلے سے بہتر ہونے لگیں۔ گاؤں والے حاجی عبداللہ کا نام احترام سے لینے لگے۔
ایک دن اس کا بیٹا پوچھنے لگا: "ابا! آپ اتنے خوش کیوں رہتے ہیں؟"
حاجی عبداللہ مسکرا کر بولا:
"بیٹا! زمینیں انسان کو امیر ضرور کرتی ہیں، مگر دل انسانوں کی خدمت سے امیر ہوتا ہے۔ اور جو دل سے امیر ہو جائے اُس سے بڑی کوئی دولت نہیں۔"
Be the first to comment