یہاں ایک دل کو چھو لینے والی دو بہنوں کی جدائی کی کہانی پیش ہے، جس میں جذبات، قربت، اور بچھڑنے کا درد ایک نرم مگر گہری فضا میں بیان کیا گیا ہے:
---
دو بہنوں کی جدائی – ایک داستانِ احساس
گاؤں کے کنارے واقع ایک چھوٹے سے کچے گھر میں دو بہنیں رہا کرتی تھیں—ثریا اور نیہا۔ دونوں کی عمر میں صرف دو سال کا فرق تھا، مگر دلوں کا فاصلہ صفر۔ ثریا بڑی تھی؛ ذمہ دار، نرم دل، اور ہر وقت اپنی چھوٹی بہن کا خیال رکھنے والی۔ نیہا شوخ، ہنستے کھیلتے لمحوں سے گھر کو زندگی دینے والی۔
بچپن سے لے کر جوانی تک دونوں نے ہر خوشی، ہر دکھ، ہر راز ایک دوسرے سے بانٹا تھا۔ بارش کے دنوں میں صحن میں کھیلے گئے کھیل، راتوں کو چاندنی کے نیچے کی گئی لمبی باتیں، اور سوتے وقت ایک دوسرے کے ہاتھ کو تھام لینے کی عادت—ان سب میں ایک ایسی محبت بستی تھی جسے الفاظ بھی چھو نہ سکیں۔
مگر زندگی ہمیشہ آسان نہیں رہتی۔
جب نیہا کی شادی طے ہوئی تو ماں باپ خوش تھے، مگر ثریا کے دل میں ایک انجانی سی نمی بھر گئی۔ وہ جانتی تھی کہ بہن کی خوشی اس کی اپنی خوشی ہے، مگر جدائی کا تصور اسے اندر سے توڑ رہا تھا۔ نیہا بھی مضبوط دکھنے کی کوشش کر رہی تھی، مگر اس کی آنکھوں میں چھپی نمی بار بار باہر آنا چاہتی تھی۔
شادی والا دن آیا تو گھر میں رونق تھی، مگر دونوں بہنوں کے دلوں میں ایک خاموش سا خوف۔ رخصتی کے وقت جب قافلہ دروازے تک پہنچا، نیہا نے آخری بار اپنے گھر کی طرف دیکھا۔ ثریا آگے بڑھی، اسے بانہوں میں لے کر اپنی آنکھوں کے بند دروازے کھول دیے۔ دونوں اتنا روتی رہیں کہ جیسے آنسو ختم ہی نہ ہوں۔
“ثریا آپا… میں آپ کے بغیر کیسے رہوں گی؟” نیہا نے گلو گیر آواز میں پوچھا۔
“میری جان، تم جہاں بھی رہو، میرا دل تمہارے ساتھ ہے… جب بھی دل دکھے، مجھے یاد کر لینا، میں وہیں ہوں گی تمہارے پاس…” ثریا نے کپکپاتی آواز میں کہا۔
گھر کی دہلیز پر وہ لمحہ دونوں کی زندگی کا سب سے مشکل لمحہ تھا۔ قافلہ آگے بڑھا، اور نیہا جاتی رہی… ثریا کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں کے ساتھ۔
وقت گزرتا گیا۔ دن، ہفتے، مہینے بدلتے رہے۔ زندگی نے دونوں کو نئے ماحول، نئی ذمہ داریوں میں ڈال دیا، مگر دل کی دھڑکن میں آج بھی ایک دوسرے کی جگہ وہی تھی۔ جب بھی بارش ہوتی، نیہا کو صحن میں کھیلے گئے وہ کھیل یاد آتے۔ جب بھی چاندنی رات آتی، ثریا کو وہ پرانی باتیں یاد آتیں۔ فاصلے بڑھ گئے، مگر احساس آج بھی اتنا ہی قریب تھا۔
ایک دن نیہا نے فون کیا، آواز میں پہلے سے زیادہ پیار تھا: “آپا… بس تھوڑا سا صبر اور… میں جلد واپس آ رہی ہوں۔ بہت یاد آتی ہیں آپ!”
ثریا کے چہرے پر وہی پرانی مسکراہٹ لوٹ آئی۔ جدائی نے انہیں جسمانی طور پر تو دور کیا تھا، مگر دلوں کو مزید گہرا جوڑ دیا تھا۔
Be the first to comment