00:00This land which has been very big, thousands of people, as well as humans, and thousands of people, and thousands of people are very small.
00:20It's very small.
00:21We will be able to take action to take action of the earth as we go and go through the gates of the sky.
00:29When we go transportation and the gates of the head and the streets of the city, the gates of the city will be built.
00:34It is the same thing for us for our entertaining world.
00:38We will come down with the Sea of the Entry Hall of the East.
00:43There will be a sense that we will see in the heavens and下 on our kinshed Hall of the East.
00:50We will see that we can see any other places that will be part of our planet.
00:57It will also be the one who will be able to see the other people who will come to us.
01:01But our whole world is going to talk about it.
01:03Yes, we will talk about it.
01:06We will see you on this trip.
01:10We will see that we will see our home in the coming year.
01:15I am Faisal Wadayach and do not listen to you, what you are doing is brand new series, KUL KAYNAAT.
01:21Today we will be the most delicious, ALIF-LAYLWEE, for our trip to date on our own own journey.
01:31We will be our trip to 3,84,000 km.
01:37because this is the most close to the place where we land can land.
01:42This is the sea of the sea. It's a very close to 3-4 days that we have here to reach.
01:52But it's too far that if we all of the sea of the sea, sea and sea, and sea of the sea, we should keep it.
02:02Or we should keep it. Or we should keep it.
02:06This is the one that has been on the last hundred years of human beings.
02:13Here we have a beautiful beautiful beautiful light of our children.
02:17But in the 20th of July 1979, when the Japanese and the American and the Buz Elderan were in the world,
02:24it had nothing to do with the same name.
02:26But the last six years of which were made of the mission in the world, they never had to do it.
02:31Science has a very beautiful story of a story that we always have for each of them.
02:37Japan has been in the past couple of years to have a story about their children.
02:42A very small and very small, poor, poor, poor,
02:45has been in the jungle with the jungle.
02:49It was on the side of the side of the jungle.
02:52It was on the side of the jungle.
02:54It was on the side of the jungle.
02:56Bڑھے نے کچھ سوچا اور انہیں آواز دی اور کہا کہ اسے کچھ کھانے کے لیے لا کر دیا جائے۔
03:02ورنہ وہ بھوک سے مر جائے گا۔
03:04بندر چھلانگیں لگاتا ندی پر گیا اور مچھلی پکڑ لیا۔
03:08صدا کے بدو اور سست گیدر نے بےوقوفی کی اور ایک چھپکلی مار کر بڑھے کے آگے رکھ دی۔
03:14بیچارے خرگوش کے ساتھ بہت برا ہوا۔
03:16اسے کچھ بھی ایسا نہ ملا جو وہ بھوکے بڑھے کے لیے لے کر جا سکے۔
03:21لیکن اس نے آجزی کی انتہا کر دی اور خود کو ہی خوراک کے طور پر بڑھے کے سامنے پیش کر دیا۔
03:27خرگوش نے کہا اے اچھے بزرگ مجھے اور تو کچھ نہیں ملا، آپ مجھے کھا کر اپنی بھوک مٹا لیجئے۔
03:34یہ کہہ کر خرگوش آگ میں کود گیا۔
03:36خرگوش کا کودنا تھا کہ بڑھے نے چادر اتار پھینکی۔
03:40اس نے فوراں خرگوش کو آگ سے نکالا اور بتایا کہ وہ ایک بھوکا لاچار بھوڑا نہیں بلکہ وہ تو آسمانوں کا دیوتا ساکا ہے۔
03:48اور اب زمین پر رہنے والوں کا امتحان لینے کے لیے جنگل میں بھیس بدلے پھر رہا ہے۔
03:54کہتے ہیں ساکا نے خرگوش کو اس کی قربانی کا انعام دینے کے لیے اس کی تصویر چاند پر نقش کر دی تھی۔
04:02تاکہ رہتی دنیا کے لیے اچھائی کی مثال ہو جائے۔
04:06یہ اور اس قسم کی کئی دوسری کہانیاں دنیا کے ہر کونے میں مشہور تھیں۔
04:12آج بھی تحقیق اور جستجو سے جی چرانے والے افراد بہت سی ایسی داستانوں پر یقین رکھتے ہیں۔
04:18آج بھی بہت سوں کو چاند کے چہرے میں اپنے مطلب کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔
04:24لیکن یہ تصویر اصل میں ہے کس کی؟ یہ کسی کی تصویر نہیں ہے۔
04:29بلکہ چاند پر پھیلا ہوا لاوہ اور راکھ ہے۔
04:33انچاس سال پہلے نیل آرنسٹانگ کی ٹیم اپنے ساتھ اسی جمع ہوئے سرد لاوے کے ٹکڑے لائی تھی۔
04:40جس پر تحقیق سے پتا چلا تھا کہ تین سے ساڑھے تین ارب سال پہلے چاند پر انگنت آتش فشاں پھٹے تھے۔
04:48جن کا لاوہ ہزاروں میل تک پھیل گیا۔
04:51یہ جمع ہوا تھنڈا لاوہ زمین سے دھبوں کی طرح نظر آتا ہے۔
04:56سائنسدان انہیں چاند کے سمندر یا ماریا کہتے ہیں۔
05:00ہر سمندر کو ایک مخصوص نام دیا جاتا ہے جیسے سی آف نالج، سی آف کرائیسز، سی آف کولڈ وغیرہ۔
05:07اور جو جگہیں چاند پر ان سیاہ دھبوں کے علاوہ ہیں اور زیادہ روشن نظر آتی ہیں انہیں آپ سہرا سمجھ لیں۔
05:14یہ دراصل وہ راک ہے جو چاند پر آتش فشاں پھٹنے سے پیدا ہوئی اور پہاڑوں پر برفباری کی طرح چاند پر پھیل گئی۔
05:22جب سورج کی روشنی سے راک پر پڑتی ہے تو یہ اور دمک اٹھتی ہے۔
05:26چاند میں چمک پیدا ہوتی ہے اور ہر طرف چاندنی پھیل جاتی ہے۔
05:30نیل آمسٹانگ نے جب چاند پر قدم رکھا تو اس کا پاؤں بھی اسی نرم راک پر پڑا تھا۔
05:36اور اسی وجہ سے وہ نشان اتنا گہرا اور واضح نقش ہوا تھا۔
05:40چاند پر انسان نس صدی پہلے پہنچا تھا لیکن اس پہلے انسان کے قدموں کے نشانات آج بھی چاند پر جن کے تو سبت ہیں۔
05:49بلکل ایسے جیسے یہ ابھی کی بات ہو۔
05:52کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
05:54اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند پر ہوا بادل اور بارش نہیں ہوتی۔
05:59کیونکہ چاند کے گرد ہماری زمین کی طرح گیسوں کا حالہ یا غبارہ نہیں ہوتا۔
06:04یعنی چاند کا کوئی اٹموسفیر نہیں ہے۔
06:07یہی وجہ ہے کہ چاند پر انسان کے قدموں کے نشانات لاکھوں برس تک قائم رہیں گے یا شاید کروڑوں یا اربوں سال تک بھی۔
06:16لیکن اربوں سال تک نسل انسانی اس شکل میں کہیں موجود بھی ہوگی یا نہیں؟
06:21یاملی ارتقاء اس سے کچھ اور ہی شکل دے چکا ہوگا۔
06:25ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے جنگجو فطرت ہی اس کا خاتمہ کر چکی ہو۔
06:30کچھ بھی ہو ایک بات تو تیہ ہے کہ انسان رہے نہ رہے چاند پر انسان کے قدموں کے نشانات انگنت سمانوں تک قائم رہیں گے۔
06:38لیکن صرف نیل آرمسٹانگ کے قدموں کے نشانات ہی ایسے نہیں ہیں جو چاند پر ہمیشہ رہیں گے۔
06:45یہاں بارہ مزید خلا نوردوں کے نشانات موجود ہیں جو اپولو 11 کے بعد اپولو 12، 13، 14، 16 اور 17 کے ذریعے چاند پر پہنچے تھے۔
06:58ان میں گولفر، اسٹرونمر، شیفرڈ کی سمیش کے نشان بھی موجود ہیں جس نے چاند پر گولف کھیلی تھی۔
07:05چاند کی ریت پر نقش و نگار بناتی چاند گاڑیوں کے نشانات بھی انگنت زمانوں تک رہیں گے۔
07:11لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ ایک نام بھی ہے۔
07:15جناب کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک خوبصورت لڑکی کا نام بھی چاند پر نقش کیا تھا؟
07:26افثانوں میں بہت سے عاشق اپنے محبوب سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تمہارے لیے چاند توڑ لائیں گے۔
07:33لیکن ظاہر ہے ایسا ہو نہیں سکتا۔
07:35لیکن ایک شخص تھا جس نے اپنی بیٹی سے وعدہ کیا تھا کہ میں تمہارا نام چاند پر لکھوں گا۔
07:42اور اس نے یہ وعدہ پورا کیا۔
07:44جی ہاں یہ چاند پر جانے والے آخری مشن اپولو سیونٹین کا کمانڈر یوجین سنن تھا۔
07:51وہ انیس سو بہتر میں تین دن چاند پر رہا اور جب اپنے ساتھی اسٹرونمر کے ساتھ واپس آنے لگا تو اس نے ایک عجیب حرکت کی۔
07:59وہ جھکا اور اس نے چاند کی چمکتی زمین پر اپنی بیٹی ٹریسی کا نام لکھا۔
08:05یہ اس کی بیٹی کے لیے ایک لازوال توفہ تھا اور یقیناً وہ اس پر بہت خوش تھا۔
08:10لیکن اس میں ایک میٹھا سا دکھ بھی شامل ہو گیا۔
08:13اسے مرتے دم تک یہ دکھ رہا کہ وہ اس چاند پر لکھے نام کی تصویر نہیں بنا سکا۔
08:19حالانکہ کیمرہ وہاں موجود تھا اور ریکارڈنگ بھی ہو رہی تھی۔
08:25یوجین کا اپولو سیونٹین مشن چاند پر جانے والا آخری مشن تھا۔
08:29اس کے بعد کوئی انسان آج تک چاند پر نہیں گیا۔
08:32یہ تصویر جو زمین کی سب سے زیادہ خوبصورت تصویر کا عزاز رکھتی ہے اسی مشن کی واپسی پر لی گئی تھی۔
08:39نیل آمستان یعنی چاند پر جانے والا پہلا انسان اور یوجین یعنی چاند پر جانے والا اب تک کا آخر انسان۔
08:47یہ دونوں اب دنیا میں نہیں رہے لیکن تاریخ ایک بڑا موڑ لینے والی ہے۔
08:53ایک بار پھر انسان چاند پر نہ صرف جانے بلکہ مستقل اسٹریشن بنانے کی تیاری کر رہا ہے۔
09:00ہو سکتا ہے یہ سب اگلے دس سے پندرہ سال میں آپ ہوتا ہوا دیکھ لیں اور اس کے فائدے بھی دیکھ لیں۔
09:07کیونکہ چاند پر مستقل بیس بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دیکھا جا سکے کہ کیا انسان چاند کے وسائل سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
09:16یہ فائدہ تو جب اٹھایا جائے گا تب اٹھایا جائے گا لیکن فیلحال تو ہم زمین سے چاند کی ایک خوبصورت سمت دیکھ ہی سکتے ہیں۔
09:24جی ہاں صرف ایک سمت۔
09:26سچ بتائیے آپ میں سے کتنوں نے کبھی غور کیا کہ ہم لاکھوں سال سے چاند کی صرف ایک ہی سمت کیوں دیکھ رہے ہیں۔
09:34چودویں کا چاند ہر بار ایک ہی طرح کا کیوں ہوتا ہے۔
09:38دھبوں والا چمکدار سا اور دھبے بھی ایک ہی جیسے۔
09:42اس کی وجہ یہ ہے کہ چاند زمین کے گرد گردش کرنے کے علاوہ اپنے مہور کے گرد بھی گردش کرتا ہے۔
09:50لیکن اپنے مہور کے گرد ایک چکر پورا کرنے اور زمین کے اطراف ایک چکر پورا کرنے میں اسے ایک سا وقت لگتا ہے۔
09:59یہی وجہ ہے کہ انسان زمین پر بیٹھ کر چاند کی دوسری سمت نہیں دیکھ پاتا اور اس عمل کو فیس لاک کہتے ہیں۔
10:08لیکن حضرت انسان بہت ترقی کر چکا ہے۔ اس نے چاند کی دوسری سمت بھی کھوج ڈالی ہے۔
10:14چاند کی دوسری سمت جسے فار سائیڈ آف مون بھی کہتے ہیں کہ تصاویر برسوں پہلے انسان بنا چکا ہے اور ہم دیکھ چکے ہیں۔
10:23لیکن اب چین کا ایک ربوٹک مشن چاند کی دوسری سمت لینڈ بھی کر چکا ہے اور اس ویڈیو کی اپلوڈنگ ڈیٹ تک مختلف تجربات میں مصروف بھی ہے۔
10:33ممکن ہے ہمیں یہاں سے چاند اور زمین کی تخلیق کے بارے میں مزید معلومات ملیں۔
10:39لیکن جو معلومات اب تک ہیں ان کے مطابق چاند کی دوسری سمت سامنے والی سمت سے بہت ہی زیادہ خوبصورت اور چمکتار ہے۔
10:49کیونکہ یہاں سیاہ دھبے بہت کم ہیں۔
10:52اگر اردو شاعر اس سمت کی تصویر دیکھ لیں تو اپنے محبوب کو ہمیشہ چاند کی دوسری سمت سے تشبیح دیا کریں۔
11:00ہو سکتا ہے چاند سے ہماری محبت کی ایک تاریخی سائنسی وجہ بھی ہو کیونکہ چاند کبھی ہماری زمین ہی کا حصہ تھا۔
11:09لیکن کوئی چار عرب سال پہلے کسی بہت بڑے شہاب ساکب کے ٹکرانے سے زمین کا ایک بڑا حصہ اس سے الگ ہو گیا۔
11:17اور کائنات کے لاف گریوٹیشن کے تحت اپنے سے بڑے جسم یعنی زمین کے گرد دائرے میں حرکت کرنے لگا۔
11:24اور وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا دور ہوتا چلا گیا۔
11:30یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ چاند ہر سال ہم سے تین اشاریہ آٹھ سینٹی میٹر دور ہو جاتا ہے۔
11:35لیکن لیکن لیکن۔ ایک منٹ ٹھہریے اور پوچھئے کہ ہم یہ بات کیسے جانتے ہیں۔
11:42تو جناب انیس سو انہتر میں چاند پر جانے والے پہلے دو اسٹرونمر نیل آنسٹانگ اور برز ایلڈرن واپس آنے لگے تو انہوں نے ایک آخری کام کیا۔
11:53ایک ایسا کام جو اس بات کا ثبوت تھا کہ ہاں انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے۔
12:00انہوں نے چاند کی ریت پر ایک ریٹرو ریفلیکٹر رکھا تھا۔
12:04یعنی ایک ایسا آئینہ جس پر اگر زمین سے لیزر لائٹ پھینکی جائے اور اس سے ٹکرائی جائے تو یہ واپس زمین پر منقص ہوگی۔
12:13بلکل ایسے جیسے آپ کسی سامنے والی دیوار پر لگے آئینے میں موبائل یا لیزر کی لائٹ ڈالیں تو یہ شوا آپ کی طرف واپس آئے گی۔
12:21لیکن صرف ان دونوں نے یہ ریفلیکٹر نصب نہیں کیے تھے۔
12:25بلکہ ان کے بعد بھی چاند پر جانے والے دو مشنز نے دو مختلف مقامات پر ایسے ہی ریٹرو ریفلیکٹر نصب کیے تھے۔
12:33یہ ریفلیکٹر آج بھی نصب ہیں۔
12:35انہی کی مدد سے ہم جانتے ہیں کہ چاند ہم سے کتنے فاصلے پر ہے اور انہی کی مدد سے ہم جانتے ہیں کہ چاند ہر سال ہم سے 3.8 سنٹی میٹر دور ہو رہا ہے۔
12:46اگر یہی رفتار جاری رہی تو پچاس عرب سال بعد کا چاند زمین سے نظر ہی نہیں آئے گا۔
12:52لیکن فکر نہ کریں اس سے پنتالیس عرب سال پہلے ہمارا سورج اپنی عمر پوری کر کے سرد ہو چکا ہو گا
12:59اور زمین پر انسانی زندگی ایک ایسا قصہ بن چکی ہوگی جسے شاید نہ کوئی سنانے والا ہو اور نہ کوئی سننے والا۔
13:09اگر ہم یعنی نسل آدم ایسا نہیں چاہتے تو ہمیں اپنی تباہی کے سامان پیدا کرنے کے بجائے
13:15اسے دوسرے سیارے یا خلا میں رہنا سیکھنا ہوگا اور یہ بھی محبت سے۔
13:21کیونکہ محبت فاتح عالم ہے۔
13:24چلیے آگے بڑھتے ہیں اور سورج کی طرف چلتے ہیں۔
13:27کہتے ہیں قیامت سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے تلو ہوگا۔
13:31تو ہمارے اور سورج کے درمیان ایک ایسی دھرتی ہے جہاں روز قیامت اترتی ہے۔
13:37جی ہاں ہم ایسی جگہ جا رہے ہیں جہاں روزانہ سورج مغرب سے ہی تلو ہوتا ہے۔
13:42اس پڑاؤ کی کہانی بھی آپ کو دکھائیں گے لیکن کل کائنات کی اگلی قسط میں۔
13:47کسط میں۔
13:55میرے.
13:57فります
14:03ٹ замет
14:09ٹ سال