- 2 days ago
Journey_to_Venus_and_Mercury_in_Urdu___Faisal_Warraich
Category
📚
LearningTranscript
00:00ہم اپنی نیلی زمین اور چاند کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چار کروڑ کلومیٹر آگے نکل آئے ہیں۔
00:10وہ سامنے گیارہ کروڑ کلومیٹر دور ہمارا سورج چمک دمک رہا ہے۔
00:16ہماری زمین اور سورج کے درمیان سامنے وہ دھرتی ہے جہاں روز قیامت اترتی ہے۔
00:23یہاں سورج مغرب سے نکلتا ہے۔ یہ زہرہ ہے، وینس، زمین کا جڑوان سیارہ۔
00:30لیکن جڑوان کیسے؟ زمین تو جنت جیسی ہے، نیلی، حسین، سرسبز، زندگی آمیز، کہکہوں اور دوستوں سے بھرپور۔
00:39لیکن یہ وینس، اوف، توبہ، آتش فشاں بھی کیا کھولتا ہوگا جو گرمی یہاں ہے۔
00:47وینس کی زمین آگ اگلتی ہے اور بادلوں سے تیزہ برستا ہے۔
00:52سلفیورک ایسڈ کی بارش ہوتی ہے یہاں، لیکن یہ سب ہمیں کیسے پتا ہے؟
00:58زمین سے کروڑوں کلومیٹر دور کی خبر ہمیں کیسے ہے اور یہ وینس جسے رومنز محبت کی دیوی کہتے تھے، جسے ہم صبح اور شام کا ستارہ کہتے ہیں۔
01:10کیا ہم وہاں رہ بھی سکتے ہیں؟
01:13کیا وینس پر زندگی کے آثار ہیں اور وہ کون ہے جو سورج سے اتنا قریب ہے کہ جل کر بھسن ہو جائے لیکن پھر بھی اس پر برف کے سمندر ہیں؟
01:25ایسا کیوں اور کیسے ممکن ہے؟
01:28میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی کل کائنات سیریز میں ہم آپ کو یہی سب دکھا رہے ہیں۔
01:40صبح ہونے سے پہلے اور شام ہوتے ہی ایک ستارہ جو آسمان پر سب سے زیادہ روشن نظر آتا ہے وہ سیارہ زہرہ یعنی پلانٹ وینس ہے۔
01:51وینس ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ تو نہیں لیکن یہ سب سے روشن کیوں دکھائی دیتا ہے؟
01:58اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ زمین کا سب سے قریبی سیارہ ہے۔
02:03دوسری اہم ترین وجہ یہ ہے کہ وینس کے گرد گیسز کے گہرے بادل تیر رہے ہیں۔
02:12یہ بادل اتنے گہرے ہیں کہ جب ان پر سورج کی روشنی پڑھتی ہے تو اس روشنی کا ستر فیصد واپس ریفلیکٹ کر دیتے ہیں۔
02:21جس کی وجہ سے وینس چاند کے بعد آسمان کا سب سے روشن جسم نظر آتا ہے۔
02:29اور جب رات بہت گہری ہو جاتی ہے تو یہی حسین سیارہ امید پرستوں کو صبحوں کی امید بھی دلاتا ہے۔
02:38لیکن باہر سے یہ جتنا حسین ہے اندر سے یہ اتنا ہی بیانک بھی ہے۔
02:44وینس کی سطح پر دو سو پچاس کلومیٹر تک گیسز کی گہری اور موٹی تہ لپتی ہوئی ہے۔
02:52ان بادلوں کو چیرتے ہوئے نیچے اتریں تو کلیجہ موں کو آتا ہے۔
02:57خدا کی پناہ اگر جہنم کی ایک جھلک انسانی زندگی میں دیکھنا ممکن ہو تو یقین کیجئے وہ وینس کی دھرتی ہی ہو سکتی ہے۔
03:07اس کی زمین ہر وقت لاوہ اگلتی رہتی ہے۔
03:11جس طرح ہماری نیلی زمین پر درختوں کے جنگل ہیں، وینس پر آتش فشاں پہاڑوں کے بن ہیں۔
03:19ہاں صرف آتش فشاں ہی ہوتے تو پھر بھی کوئی بات تھی۔
03:23یہاں تو ہر دم توفانی بارش بھی ہو رہی ہے اور وہ بھی تیزاب کی۔
03:28اوف میرے خدا، سلفیورک ایسٹ برستا ہے یہاں اور یوں برستا ہے جیسے ساون میں آسمان پھٹ پڑے۔
03:36آتش فشاں اور تیزابی بارش کو ذہن میں رکھیں اور ابھی اور بھی سنیں۔
03:41وینس پر سیکڑوں کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے طوفانی ہوائیں بھی چلتی رہتی ہیں۔
03:47ہماری زمین پر آنے والے طوفانوں کو ہم ہریکین ون، ٹو، تھری، فور اور فائیو میں تقسیم کرتے ہیں۔
03:54ہریکین فائیو دنیا میں کسی بھی طوفان کی سب سے بڑی کیٹیگری ہے۔
03:59جس میں درخت اکھڑ جاتے ہیں، چھتیں اڑ جاتی ہیں اور وہ علاقہ جہاں یہ طوفان آئے رہنے کے قابل نہیں رہتا۔
04:07ہریکین فائیو کی رفتار اڑھائی سو کلومیٹر فی گھنٹا ہوتی ہے جبکہ وینس پر جو طوفان گردش کرتا رہتا ہے اس کی رفتار ہوتی ہے تین سو ساٹھ کلومیٹر فی گھنٹا۔
04:20تیز ترین طوفان اور اڑھائی سو کلومیٹر موٹی بادلوں کی تہ یہ ہے اس محبت کی دیوی کا فرسٹ امپریشن جسے زمین پر رہتے ہوئے ہم نے دل سے چاہا تھا۔
04:35اور اب وینس کی دھرتی ہم سے کہہ رہی ہے آپ کو میرے تعرف کی ضرورت کیا ہے میں وہی ہوں جسے آپ نے چاہا تھا کبھی۔
04:43ایسے خوفناک سیارے پر تو کوئی نہیں رہ سکتا یہاں زندگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔
04:53ایک تو یہ کہ اڑھائی سو کلومیٹر انچی بادلوں کی تہک کی وجہ سے وینس پر اٹموسفیرک پریشر زمین سے بے پناہ زیادہ ہوتا ہے۔
05:03کتنا زیادہ ہوتا ہے یوں سمجھیں کہ زمین پر گیسوں کا دباؤ چودہ اشاریہ سات پاؤنڈز پر سکوئر انچ ہوتا ہے جبکہ وینس پر یہی دباؤ ہوتا ہے تیرہ سو پاؤنڈز پر سکوئر انچ۔
05:18ہمارے گھر یعنی ہماری نیلی دنیا کی نسبت نوے فیصد زیادہ۔
05:23یہ دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ کوئی انسان تو کیا اگر یہاں مضبوط گاڑی بھی کھڑی کر دی جائے تو پچک کر رہ جائے۔
05:32اسی لیے زندگی کی زیادہ ترقی آفتہ شکل، ڈیویلپڈ فارم یہاں ملنا مشکل ہے لیکن شاید کسی ابتدائی درجے کی زندگی کے آثار تو مل جائیں۔
05:44جیسے ایک خلیے پر مشتمل زندگی، کوئی الگی، کوئی بیکٹیریا یا کم از کم کوئی مایکو پلازما جو زندگی کی سب سے سادہ شکلوں میں سے ایک ہے۔
05:56یہاں زندگی نہ ہونے کی ایک دوسری وجہ بھی ہے وہ یہ کہ زندگی کی ایک اور لازمی شرط پانی اور آکسجن ہے۔
06:04جبکہ وینس کے اٹموسفیر میں آکسجن نہ ہونے کے برابر اور وہ گیس جو زندگی کی علامت ہرگز نہیں،
06:12یعنی کاربن ڈائیکسائیڈ وہ وینس کی فضا میں نائنٹی سکس پرسنٹ ہے۔
06:18یہ کمبینیشن کتنا خوفناک ہے اس کا اندازہ یوں لگائیں کہ ہماری زمین کے اٹموسفیر میں اٹھتر فیصد نائٹروجن اور اکیس فیصد آکسجن ہوتی ہے۔
06:30جبکہ پوائنٹ ون پرسنٹ ایک فیصد سے بھی کم کاربن ڈائیکسائیڈ کے مولیکیولز ہوتے ہیں۔
06:37یوں یہاں زندگی جنم لینے اور آگے بڑھنے کا ایک سبب بیدا ہو جاتا ہے جبکہ وینس پر یہ ایکویشن بہت ہی الٹی ہے۔
06:47آکسجن تو ایک طرف زندگی کی ایک اور اہم ترین شرط یعنی بہتہ پانی بھی تو وینس پر نہیں ہے۔
06:54تو ایسے میں وینس پر زندگی کے آثار تلاش کرنا دیوانے کا خواب ہی ہو سکتا ہے۔
07:01لیکن یہ کیا؟ وینس کی سطح پر تو گرینائٹ یعنی سنگ مرمر موجود ہے۔
07:07اور گرینائٹ کا پتھر کبھی بھی پانی کے بغیر نہیں بنتا اور وہ بھی بہت بڑی مقدار میں پانی سمندروں جتنا پانی۔
07:19تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ یہاں کبھی سمندر بھی تھے؟
07:23جی ہاں وینس شروع میں بالکل زمین جیسا تھا۔
07:27عربوں سال پہلے جب ہمارا نظام شمسی وجود میں آیا تو زمین اور وینس ایک جیسے تھے۔
07:34ان میں زیادہ فرق نہیں تھا۔
07:36دونوں پر زمین پر اور وینس پر لہریں اٹھاتے سمندر تھے۔
07:41لیکن پھر وینس سورج کے قریب ہوتا چلا گیا اور گرم سے گرم تر ہوتا چلا گیا۔
07:47اس کے گرد موجود گیسوں کا حالہ یعنی اٹموسفیر اتنا موٹا اور گاڑا ہوا کہ وینس جہنم زار بن گیا۔
07:55سورج کی روشنی اس کے اٹموسفیر میں داخل تو ہو جاتی ہے لیکن پھر واپس نہیں آ پاتی۔
08:01یہی وجہ ہے کہ کروڑوں سال تک گرمی وینس کے اندر جمع ہوتی چلی گئی اور اس کا درجہ حرارت اتنا بڑھ گیا کہ تصور بھی محال ہے۔
08:11وینس پر درجہ حرارت چار سو اکتر ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔
08:16بلکہ بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ۔
08:19سو گیسوں کے شدید دباؤ، تیزابی بارش، توفانی ہواوں اور آگ اگلتے انگنت آتش فشاں پہاڑوں نے ثابت کیا ہے کہ وینس ہمارے رہنے کی جگہ ہرگز نہیں ہو سکتی۔
08:32تو وہ دیکھئے، وہ جو پچکا ہوا، جلا ہوا، ایک لوہے کا ڈھانچا جو وینس کی سطح پر نظر آ رہا ہے نا۔
08:46یہ وینیرہ تھری کا بچا کھچا پنجر ہے۔
08:49انیس سو چھائٹھ میں انسان کے چاند پر قدم رکھنے سے تین سال پہلے سوویت روس نے وینس پر تحقیقات کے لیے وینیرہ پروگرام شروع کیا تھا۔
08:59اس پروگرام کا تیسرا مشن، وینیرہ تھری، وینس پر اترنے میں کامیاب رہا اور یکم مارچ، انیس سو چھائٹھ کو وینس کی سطح پر اتر گیا۔
09:09بلکہ صحیح الفاظ میں کہا جائے تو گر گیا۔ کیونکہ یہ ایک فیل لینڈنگ تھی، یہ ایک انمینڈ مشن تھا یعنی اس مشین میں کوئی انسان سوار نہیں تھا۔
09:22لیکن ہوا یہ کہ وینیرہ تھری وینس پر اترتے ہی بے پناہ تپش سے جل کر اور اٹموسفرک پریشر کے انتہائی دباؤ کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کر ناکارہ ہو گیا۔
09:33اس نے کوئی ڈیٹا یعنی معلومات زمین پر نہیں بھیجیں۔
09:38انسان کی اس پہلی کامیابی کا ملبہ آج بھی وینس پر موجود ہے۔
09:43اس پر سوویت روس کی مہر ایک درانتی اور ہتھوڑا بھی نقش ہے۔
09:48اگرچہ یہ وینس پر کوئی تجربات نہیں کر پایا لیکن یہ وینس کا پہلا زمینی مہمان تھا۔
09:54منیرہ تھری کے بعد سوویت روس نے چوتھا، پانچوان اور چھٹا مشن وینس پر بھیجا لیکن بدقسمتی سے سب ناکام رہے ہیں۔
10:04انہی ناکامیوں سے سیکھتے ہوئے سوویت روس ہر نئے سپیس کرافٹ کو پہلے سے بہتر بناتا چلا گیا۔
10:11یہی وجہ ہے کہ جب سوویت روس نے وینیرہ سیون بھیجا تو وینس کا تباہ کن موسم بھی اسے فوری طور پر تباہ نہیں کر پایا۔
10:19یہ پروب تئیس منٹ تک کام کرتا رہا اور زمین پر سگنلز بھی بھیجتا رہا۔
10:25اس کے بعد وینیرہ ایٹ اور پھر وینیرہ نائن وینس پر پہنچایا گیا۔ یہ بھی اگرچہ تریپن منٹ بعد وینس کے گہرے بادنوں سے ہوتا ہوا،
10:35وینس کی سطح پر کہیں لاپتہ ہو گیا لیکن لاپتہ ہونے سے پہلے پہلے وہ وینس کے بارے میں ایک ایسی خبر دے گیا جو سپیس سائنسز میں ایک عظیم کامیابی۔
10:45یہ تصویر جو آپ دیکھ رہے ہیں وینس کی سطح کی پہلی تصویر ہے یہ وینیرہ نائن ہی نے بنائی اور زمین پر بھیجی تھی۔
10:55اور یہ تصویر جو وینس کی پہلی رنگین تصویر ہے وینیرہ تھرٹین نے انیس سو پچاسی میں وینس سے ہماری زمین پر بھیجی تھی۔
11:04سوویت روس سمیت اب تک امریکہ اور جاپان کے کل ملا کر چالیس کے قریب سپیس کرافٹ وینس کے لیے جا چکے ہیں۔
11:12کچھ کامیاب رہے اور کچھ ناکام۔ لیکن وہ مشن جس نے ہمیں وینس کا نقشہ دیا ناسا کا پائونیر مشن تھا جسے انیس سو اٹھتر میں لانچ کیا گیا تھا۔
11:22یہ اس طرح ڈیزائن کیا گیا تھا کہ اسے وینس کی سطح پر اترنا نہیں تھا۔
11:28بلکہ وینس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کی تصویریں لینا اور زمین پر سگنلز کے ذریعے بھیجنا تھیں۔
11:35پائونیر نے بارہ سال اپنا کام خوب ڈھنگ سے کیا۔
11:39اسی کی بدولت ہمیں پتا چلا کہ وینس پر مونٹ ایورسٹ سے بلند ایک پہاڑ اور امریکہ کے گرینڈ کینین سے گہری کھائیاں بھی موجود ہیں۔
11:49انیس سو بانمے میں پائونیر وینس آر بیٹر ریٹائرڈ ہو گیا اور وینس میں گر کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔
11:57لیکن یہاں ایک بار پھر رکھئے اور سوچئے کہ کروڑوں کلومیٹر دور سے یہ مشینیں زمین پر سگنل کیسے بھیجتی ہیں۔
12:07بلکل ایسے جیسے ہم ریموٹ کنٹرول سے ٹی وی چلاتے ہیں۔
12:11فرق ہے جو صرف فاصلے کا۔
12:15ریموٹ کنٹرول سے سگنلز چند فٹ کے فاصلے تک جاتے ہیں جبکہ سپیس کرافٹ سے سگنلز کروڑوں کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں۔
12:23سپیس کرافٹ جب کسی سیارے یا چاند پر اترتے ہیں تو ان میں پہلے سے ایک انٹینہ نصب ہوتا ہے۔
12:30اسی انٹینے سے ریڈیو سگنلز زمین پر بھیجے جاتے ہیں۔
12:34ان سگنلز کو زمین پر موجود یہ بڑے بڑے ریڈیو انٹینہ کیچ کرتے ہیں اور متعلقہ سپیس ریبورٹری میں بھیج دیتے ہیں۔
12:42ان ریبورٹریز میں پیغامات کو ڈی کوڈ کرنے کا پورا نظام موجود ہوتا ہے کیونکہ یہ سگنلز بائنری کوڈز یعنی صرف دو ہنسوں زیرو اور ون پر مشتمل ہوتے ہیں۔
12:53جیسا کہ ہمارے کمپیوٹرز اور سمارٹ فون ٹیکنولوجیز میں ہوتا ہے۔
12:57اسی سے ہمیں وہ سب معلومات ملتی ہیں جو چاند اور مریخ سمیت ان سینکڑوں مقامات سے آتے ہیں جہاں انسان نے پروبز یا تحقیقاتی مشنز بھیج رکھے ہیں۔
13:08لیکن اس میں ایک دلچسپ مشکل بھی ہے۔
13:11اور وہ یہ کہ زمین تو ہر وقت گردش کر رہی ہوتی ہے۔
13:15اگر ایک ریسیور زمین کے اس مقام پر ہے تو بارہ گھنٹوں بعد وہ زمین کی دوسری طرف ہوگا۔
13:22اب سوال یہ ہے کہ یہاں وہ سگنلز کیسے رسیب کرے گا۔
13:26اس مشکل کا حل یہ نکالا گیا کہ زمین کے گردہ گرد بہت سے ایسے ہی انٹینہز موجود ہیں جو ایک دوسرے سے منسلک بھی ہیں۔
13:35ایک دوسرے سے انیکٹڈ ہیں۔
13:37اسی لیے کسی بھی وقت سگنلز مس نہیں ہوتے۔
13:41اسی طرح جن سیاروں پر یہ پروبز یعنی سپیس کرافٹ بھیجے جاتے ہیں وہ بھی تو گردش کر رہے ہیں۔
13:47ان پر جب مشین حرکت کرتی ہوئی سطح کے دوسری طرف چلی جاتی ہے تو وہ کیسے سگنلز بھیج سکتی ہے۔
13:54وہ اس طرح کہ جس سیارے یا چاند پر تجربات کے لیے خلائی مشین کو اتارا جاتا ہے تو اسی سیارے کے مدار میں مسلسل ایک یا ایک سے زیادہ سیٹلائٹ حرکت کرتے رہتے ہیں جو مشین سے سگنل وصول کر کے زمین کی طرف بھیج دیتے ہیں۔
14:11اور ان سگنلز کو وہی طاقتور انٹیناز یا رسیورز کیچ کر لیتے ہیں۔
14:17اس سارے سسٹم کو ڈیپ سپیس نیٹورک یا ڈی ایس این کہتے ہیں۔
14:24یہ سسٹم اتنا ترقی یافتہ ہے کہ عام سگنلز سے بیس ارب گناہ کمزور سگنلز بھی کیچ کر لیتا ہے۔
14:31کیونکہ کچھ پحقیقاتی مشنز انسان اربوں کلومیٹر دور بھیج چکا ہے۔
14:37ہے نہ حیرت کی بات، اس کی تفصیل بھی ہمارے راستے میں آئے گی لیکن فیلحال اس حیرتناک منظر کا سامنا کریں کہ وینس نظام شمسی کا واحد سیارہ ہے جہاں سورج مغرب سے تلو ہوتا ہے۔
14:50کہتے ہیں قیامت کے قریب سورج مغرب سے نکلے گا۔ اس حساب سے وینس پر ہر روز قیامت اترتی ہے۔
15:03کیونکہ یہاں سورج مغرب سے ہی تلو ہوتا ہے۔
15:07کچھ لوگوں کے ذہن میں یہ ضرور سوال پیدا ہوگا کہ مشرق تو وہ ہی ہوتا ہے جہاں سے سورج تلو ہو۔
15:14تو ایک سیارے پر جہاں ہر بار ایک ہی سمت سے سورج تلو ہو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مغرب سے تلو ہوتا ہے۔
15:22تو واقعہ یہ ہے کہ اگر کتب شمالی ستارے کے حساب سے دیکھیں تو نظام شمسی کے تمام سیاروں کی گردش گھڑی کی سوئیوں کے الٹ ہے۔
15:32یعنی انٹی کلوک وائز ہے۔
15:34اس لیے سب سیاروں کے مشرق اور مغرب ایک جیسے ہیں جبکہ صرف اس ایک سیارے کی اپنے مہور کے گرد گردش گھڑی کی سوئیوں کی طرح ہی ہے۔
15:44یعنی کلوک وائز۔
15:46اس لیے باقی نظام شمسی کے حساب سے دیکھیں تو یہاں الٹا نظام چل رہا ہے۔
15:51اس حساب سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وینس پر سورج زمین اور دیگر سیاروں کے مطابق مغرب سے تلو ہوتا ہے اور مشرق میں غروب ہو جاتا ہے۔
16:01یہ گردش صرف الٹی ہی نہیں بلکہ بہت ہی زیادہ سست بھی ہے۔
16:07اتنی سست کہ وینس کا ایک دن زمین کے دو سو تین تالیس دنوں جتنا طویل ہوتا ہے۔
16:14مطلب یہ کہ چونکہ وینس سست ہے اس لیے اپنے مہور کے گرد جب اس کا ایک چکر پورا ہوتا ہے تو ہماری زمین اس وقت تک اپنے مہور کے گرد دو سو تین تالیس چکر لگا چکی ہوتی ہے۔
16:29ایک چکر مطلب ایک دن اور اس سے بھی مزے کی بات یہ ہے کہ وینس پر سال دن سے چھوٹا ہوتا ہے۔
16:37ہے نہ حیرت کی بات، جتنی دیر میں وینس سیارہ اپنے مہور کے گرد ایک چکر لگاتا ہے اس سے پہلے دو سو پچیس دنوں میں یہ سورج کے گرد ایک چکر مکمل کر کے دوسرا شروع کر چکا ہوتا ہے۔
16:51یعنی اگر آپ وینس پر رہنے کا کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ نکالیں تو ایسا این ممکن ہے کہ آپ ایک دن میں دو بار اپنی سالگرہ منا لیں۔
17:02کہیں ایسا نہ ہو ہم وینس پر کھڑے کھڑے دنوں میں بوڑے ہو جائیں۔ کیوں نہ وینس کو چھوڑتے ہوئے آگے بڑھا جائیں۔ وہ سامنے سورج کی طرف۔
17:14چلیئے آگے بڑھتے ہیں بس اتنا یاد رہے کہ ہم اس وقت زمین سے سات کروڑ کلومیٹر سے بھی زیادہ دور آ چکے ہیں۔
17:24آگے کا سفر اتنا دلچسپ ہے کہ واپسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
17:29اوف یہاں سورج کی گرمی بے پناہ ہے، ناقابل برداشت ہے۔ شاید ہمیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا۔
17:37لیکن ٹھہریے۔
17:39یہ سورج کے سنہرے دھال پر جو ایک نکتہ سا تیزی سے تیرتا جا رہا ہے، یہ ہمارے نظام شمسی کا سب سے پہلا اور سب سے چھوٹا سیارہ مرکری ہے۔
17:50اس کی سطح پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو آسمان ایک حیرتناک منظر پیش کرتا ہے۔
17:56مرکری کا آسمان کالا سیاہ ہے، رات سے بھی زیادہ تاریخ تر۔
18:02ہماری زمین کے جیسا خوبصورت نیلگوں آسمان یہاں آپ کو نہیں ملے گا۔
18:07لیکن آپ حیران ہوں گے کہ آسمان کا اصل رنگ کالا ہی ہے۔
18:12بلکہ زیادہ درست بات یہ ہے کہ وہ چیز جسے ہم آسمان کہتے ہیں اصل میں کوئی رنگ نہیں رکھتی اور آسمان کوئی چیز بھی نہیں ہے۔
18:21بلکہ ایک unlimited، لا متناہی، بے کران پھیلا ہوا خلا ہے جس کا کوئی رنگ نہیں ہے۔
18:29تو پھر ہمیں زمین سے آسمان نیلہ کیوں نظر آتا ہے؟
18:33اس کی وجہ جاننے کے لیے پہلے یہ جان لیں کہ سورج کی روشنی سات رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
18:40یہ رنگوں کا فرق دراصل ویولیندھ کا فرق ہے۔
18:44سرخ رنگ کی ویولیندھ سب سے زیادہ جبکہ نیلے اور وائلٹ کی سب سے کم ہوتی ہے۔
18:50جب سورج کی روشنی ہماری زمین کے اٹموسفیر میں داخل ہوتی ہے تو فضا میں موجود نائٹروجن اور آکسیجن کے مالیکیولز سے ٹکراتی ہے۔
18:59ریڈ، آرنج، ییلو اور گرین کی ویولیندھ اتنی زیادہ ہے کہ مالیکیولز انہیں روک نہیں پاتے اور یہ صاف نکل کر زمین پر پہنچ جاتی ہے۔
19:10جبکہ نیلے یعنی بلو اور بنفشی یعنی والٹ کلر کی ویولیندھ اتنی کم ہے کہ یہ مالیکیولز سے ٹکرا کر فضا میں ہر طرف بکھر جاتے ہیں۔
19:19یہی وجہ ہے کہ ہمیں آسمان نیلا نظر آتا ہے۔
19:23لیکن آپ پوچھیں گے کہ والٹ کلر بھی تو فضا میں بکھرا ہوتا ہے بلکہ زیادہ بکھرا ہوتا ہے۔
19:29تو ہمیں آسمان بنفشی یا والٹ کیوں نظر نہیں آتا؟ اس کا جواب ہے ہماری آنکھ کی لیمٹ۔
19:36جی ہاں ہماری آنکھ کی بائیولوجی ایسی ہے کہ یہ والٹ کی نسبت نیلے رنگ کی ویولیندھ کے لیے زیادہ سینسٹیو ہے۔
19:44یعنی زیادہ آسانی سے سمجھتی ہے۔
19:47اسی لیے ہمیں آسمان پر پھیلا بنفشی رنگ نظر ہی نہیں آتا، حالانکہ وہ وہاں ہوتا ہے۔
19:54لیکن ہاں چند جانور ایسے ہیں جن کی آنکھ چھوٹی سے چھوٹی ویولیندھ کو بھی کیچ کر لیتی ہے۔
20:01جیسے شہد کی مکھی اور اقاب وغیرہ۔
20:04اور یہ این ممکن ہے کہ ان جانوروں کو آسمان نیلا نہیں بلکہ والٹ یعنی کچھ ایسا نظر آتا ہو۔
20:11چونکہ مرکری کے گرد کسی قسم کی گیسوں کا کوئی گھیرا نہیں ہے اس لیے سورج کی سترنگی روشنی یہاں سیدھ ہی پڑتی ہے۔
20:20اور سورج، سنہرہ اور آسمان تاریخ سیاہ نظر آتا ہے۔
20:25نہ صرف یہ کہ مرکری کی کوئی فضا نہیں بلکہ وینس ہی کی طرح اس کا کوئی چاند بھی نہیں ہے۔
20:32وجہ یہ ہے کہ مرکری کی کشش سکل یعنی گریوٹی اتنی کم ہے کہ یہ اپنے گرد کسی بڑے خلائی پتھر کو جکڑ نہیں پاتا۔
20:42اس کو اپنی طرف کھینچ کر اپنے گرد گردش کرنے پر مجبور نہیں کر پاتا۔
20:47اس کے قریب آنے والے تمام شہابیے یعنی میٹورائیڈز یا تو اس سے ٹکرا جاتے ہیں یا اس سے ساڑھے تین کروڑ کلو میٹر دور بھیکتے اور لپتے پھیکتے سورج میں گر جاتے ہیں۔
21:00اور کیوں نہ گریں آخر ہمارے سورج کی کشش بھی تو غزب کی ہوتی ہے۔
21:06کائنات میں جو جسم جتنا زیادہ وزن رکھتا ہے اتنی ہی اس کی کشش بھی زیادہ ہوتی ہے۔
21:12مرکری ایک چھوٹا سیارہ ہے اس کا والیم اور میس دونوں زمین کے والیم اور میس کا صرف چھے فیصد ہیں۔
21:20لیکن اس کی کشش سکل زمین کی کشش سکل کا تقریباً چالیس فیصد ہے۔
21:26یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کا وزن زمین پر ستر کلو گرام ہے تو مرکری پر یہ صرف تیس کلو گرام رہ جائے گا۔
21:35آپ وزن کم کرنے کے لیے مرکری پر جا سکتے ہیں۔
21:39بس اتنا سا مسئلہ ہے کہ یہ کم شدہ وزن دوستوں کو دکھانے کے لیے شاید آپ واپس زمین پر نہ آ سکیں۔
21:47لیکن اگر وزن کم کرنے کے لیے آپ مرکری پر آ جائیں تو کوشش کریں کہ یہاں ایک سے زیادہ دن نہ گزاریں۔
21:54کیونکہ مرکری وینس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔
21:58یہاں دن بہت بڑے اور سال بہت چھوٹے ہوتے ہیں۔
22:02یہاں کا ایک دن پورے دو سال کے برابر ہوتا ہے بلکہ تھوڑا سا زیادہ۔
22:08مرکری اپنے محور کے گرد ایک چکر ایک سو چھہتر دن میں مکمل کرتا ہے یعنی تقریباً چھے ماہ میں۔
22:16جبکہ یہی مرکری سورج کے گرد صرف اٹھاسی زمینی دنوں میں چکر مکمل کر لیتا ہے۔
22:22اس طرح مرکری کا ایک دن اس کے دو سال سے بھی کچھ بڑا ہوتا ہے۔
22:28سورج کے انتہائی قریب ترین ہونے کی وجہ سے مرکری ہمیشہ دو انتہاؤں کے درمیان رہتا ہے۔
22:35اگر دن میں یہی سیارہ آٹھ سو ڈگری کی ناقابل برداشت تپش سے دھیک رہا ہوتا ہے تو رات میں اس کا درجہ حرارت منفی دو سو پچھتر ڈگری تک گر بھی جاتا ہے۔
22:48نظام شمسی یعنی اپنے سولر سسٹم کے کنگ سورج کا پڑوس چاہیے تو اتنا تو برداشت کرنا ہی ہوگا۔
22:56سورج کے اتنے قریب ہونے کے باوجود اس پر اب ایک بھی آتش فشان نہیں ہے۔
23:02ہاں کبھی ہوتے تھے لیکن اب سب مرک خپ چکے ہیں اسی لیے مرکری ایک مردہ سیارہ ہے۔
23:09یعنی اس کے دامن میں نہ تو آگ ہے اور نہ اس کا کوئی اٹموسفیر یا مینگنیٹک فیلڈ ہے۔
23:14لیکن اس کی زندہ دلی دیکھئے کہ کہاں آگ کی لپٹیں برساتے سورج کا پڑوس اور کہاں اس کے کناروں پر چھپی برف کی جھیلے۔
23:24جی ہاں مرکری پر آتش فشان تو نہیں برف ضرور ہے۔
23:29لیکن کہاں تقریباً اسی جگہ جہاں زمین پر ہوتی ہے۔
23:33انیس سو اکانوے میں جب زمین سے ایک ریڈار نے سگنلز کے ذریعے پتا چلایا کہ مرکری پر برف موجود ہو سکتی ہے۔
23:40تو سائنستان چکرا کر رہ گئے تھے کہ سورج کے بالکل سامنے موجود ننے منے سیارے پر برف یہ کیسے ممکن ہے۔
23:49پھر اس کی تصدیق کے لیے انسان نے کروڑوں ڈالرز خرج کر دیا۔
23:54دو ہزار بارہ میں جب مرکری پر بھیجے گئے ناسا کے خلائی مشن، میسنجر نے ایسی تصاویر بھیجیں جن میں برف کی موجودگی ثابت ہو گئی۔
24:04تو خلائی تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے خوشی سے تڑپ اٹھے۔ یہ برف مرکری کے شمالی حصے میں گہرے گڑوں کے اندر تھی۔
24:13یہ ایسی جگہیں تھیں جہاں کروڑوں برس سے سورج کی روشنی نہیں پہنچی تھی۔
24:18یہ گڑے نہ جانے کب سے مستقل اندھیرے میں تھے۔ اسی لیے یہاں جو برف گری وہ سورج کی روشنی اور حدت سے محفوظ رہی۔
24:28جب یہ برف دریافت ہوئی تو خلا میں کسی سیارے پر زندگی کے آثار تلاش کرنے والوں کی امید ایک بار پھر جاگ اٹھی۔
24:37بہت سوں کو ایک لمحے کے لیے یہ خیال بھی آیا کہ شاید اسی برف کی تہہ میں کہیں کوئی ایک خلیے پر مشتمل زندگی موجود ہو،
24:46کہیں کوئی ایک جراسین، کوئی ایک امیبہ، کوئی ایک بیکٹیریا یا جراسین وغیرہ۔
24:51لیکن مرکری کی تحقیق کے لیے جانے والے ناسا کے دو پروگرامز میرینر اور میسنجر دونوں سے وہاں پر زندگی کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
25:00ان دونوں مشنز میں سے میرینر ٹین ایتیس سال کے تحقیقات کے بعد ریٹائر ہو چکا ہے اور خلا میں سورج کے قریب ایک مدار میں بے مقصد ریٹائر لائف گزار رہا ہے۔
25:12لیکن دوسرا مشن میسنجر جو ایک ربوٹک سپیس کرافٹ تھا وہ چار سال مرکری کے گرد تحقیقات کرنے اور مرکری کی شاندار تصاویر زمین پر بھیجنے کے بعد اپریل دوہزار پندرہ میں مرکری ہی پر کریش لینڈنگ کر کے ختم ہو چکا ہے۔
25:31آج ہم سیارے مرکری کے بارے میں جو بھی تازہ ترین معلومات رکھتے ہیں وہ اسی ربوٹک سپیس کرافٹ میسنجر کی بھیجی ہوئی تصاویر کی وجہ سے ممکن ہے۔
25:41ان دونوں کے بعد بھی مرکری کے لیے نئے مشن ضروانہ کیے جا رہے ہیں اور کچھ کیے جا چکے ہیں۔
25:49بہکتے، کھولتے، آگ برساتے سورج کے سامنے ایک ننے منے سیارے پر زندگی بھلے دریافت نہیں ہوئی۔
25:57لیکن چلیں برف تو دریافت ہو گئی نا۔
26:00لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں برف آئی کہاں سے؟
26:04کہتے ہیں وہی سے آئی جہاں سے زمین کے لیے آئی تھی۔
26:08پھر زمین پر برف کہاں سے آئی؟
26:10ایک پاگل سورج کے گرد چادر تامنے کا منصوبہ کیوں بنا رہا ہے؟
26:15اور یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ منصوبہ ہے کیا؟
26:19سورج سے ہوتے ہوئے آپ کو ایک ایسے سیارے پر لے جائیں گے جہاں واقعی انسان جانے والا ہے۔
26:26اور ہو سکتا ہے۔ آیا بھی وہیں سے ہو۔
26:29انسان وہاں کیسے جائے گا، کیسے رہے گا اور آخر وہ ایسا کر کیوں رہا ہے؟
26:36یہ سب کچھ آپ کو دکھائیں گے لیکن کل کائنات کے اگلے حصے میں۔
26:40ہمارے زمین سے کائنات کے سفر کو آپ ماضی کا سفر کہہ سکتے ہیں۔
26:46کیونکہ ہم جون جون کائنات میں آگے بڑھتے ہیں دراصل ماضی میں سفر کرتے ہیں۔
26:52ایسا کیوں ہے؟ یہ آپ اس سفر میں ساتھ ساتھ جانتے چلے جائیں گے۔
26:57اس سفر کی پہلی قسط جس میں ہم آپ کو چاند کے روشن اور تاریخ دونوں سمتوں میں لے گئے تھے،
27:03چاند کی دیو مالائی کہانی بھی دکھائی تھی، سائنسی تجربات کرتے ربورٹس اور انسان دکھائے تھے۔
27:09یہ بھی بتایا تھا کہ وہاں کس خوبصورت لڑکی کا نام لکھا ہے اور کس نے لکھا ہے۔
27:15اگر آپ نے کل کائنات کی یہ پہلی قسط نہیں دیکھی تو یہاں کلک کیجئے۔
27:19اسلامی تاریخ کے ایک عظیم ہیرو سلاہ الدین ایوبی کی داستان حیات دیکھنے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
27:26جبکہ پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین موڑ کارگل کی مکمل کہانی جاننے کے لیے یہاں کلک کیجئے۔
Recommended
3:14
24:14
21:20
20:22
13:56
36:27
35:36
39:00
38:23
6:44
38:38
8:20
0:17
0:26
17:25
3:57
4:00