شہزادۂ خاک" ایک پُراثر تاریخی افسانوی سوانح ہے جو سندھ کے ایک فرضی نواب، صادق عباسی، کی عظیم زندگی کے نشیب و فراز کو بیان کرتی ہے۔ پیدائش سے لے کر وصال تک کی کہانی ایک شاہزادے کے سفر کو پیش کرتی ہے جس نے سونے کے تخت کو چھوڑ کر عوام کی خدمت کو اپنا مقصدِ حیات بنایا۔ اس کہانی میں شاہی روایات، ذاتی المیے، سیاسی جدوجہد، عوامی خدمت کے غیر معمولی کارنامے، اور آخر میں زوال کے بعد بھی بقا پانے والی انسانی قدروں کی داستان سموئی گئی ہے۔ یہ محض ایک شخص کی کہانی نہیں، بلکہ پاکستان کے ایک اہم دور کی اجتماعی یادداشت اور ہر اس انسان کے لیے ایک سبق ہے جو اپنے مقام سے بڑھ کر سوچتا ہے۔
00:03شاہی شان و شوقت اور عوامی مقبولیت کے پیچھے نواب صادق عباسی کی ذاتی زندگی کروی آزمائشوں سے بھری تھی
00:12انیس سو پیسٹھ میں اس کی اہلیہ بیگم فاطمہ جو اس کی بچپن کی سہلی تھی ایک موزی بیماری کا شکار ہو کر چل بسیں
00:22یہ صادق کے لیے دل توڑ دینے والا صدمہ تھا
00:25اس صدمے نے اسے اندر سے توڑ دیا لیکن اس نے اپنے دو چھوٹے بچوں مریم اور اکبر کی پرورش اور اپنی ذمہ داریوں کو اس مصیبت پر غالب آنے کا ذریعہ بنایا
00:37پھر انیس سو اکتر کا علمناک دور آیا
00:41مرک ٹوٹ گیا
00:43اس کا ایک قریبی دوست جو مشرقی پاکستان میں تھا جنگ میں مارا گیا
00:49اس حادثے نے صادق کو گہرے صدمے اور قومی علمیے کے احساس میں ڈبو دیا
00:54اس کے بعد اس کے بڑے بیٹے اکبر نے جو برون ملک تعلیم حاصل کر رہا تھا
01:00اپنے وطن واپس آنے سے انکار کر دیا اور غیر ملکی شہریت لے لی
01:05جو نواب کے لیے ایک اور شدید ذہنی دھچکہ تھا
01:08ان تمام علمیوں نے اسے مزید راسخل عقیدہ اور عوامی خدمت کے لیے وقف کر دیا
01:14یہ سمجھتے ہوئے کہ غم بانٹنے سے ہلکا ہوتا ہے
01:18انیس سو ستر اور اسی کی دہائی نواب صادق اباسی کے اروج کا دور تھا
01:23اس کی دیانتداری تعلیم و صحت کے لیے غیر معمولی خدمات اور سیاست میں باوصول کردار نے
01:31اسے پورے پاکستان میں قابل احترام شخصیت بنا دیا
01:34وہ مختلف قومی کمیشنوں کے رکن مقرر ہوئے
01:39جن میں تعلیمی پالیسی اور دہی ترقی کے اہم اجلاس شامل تھے
01:43اس نے ہمیشہ صوبائی خودمختاری کے ساتھ وفاقی اکجہتی پر زور دیا
01:47اس کی دانشورانہ تقریریں اور مزامین قومی اخبارات میں شائع ہوتے تھے
01:53انیس سو ستتر میں اسے بین الاقوامی امن اور تعلیم کے فروغ میں کردار کے لیے
02:00اقوام متحدہ کے ایک فورم پر پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا
02:04وہاں دیئے گئے اس کے خطاب نے عالمی سطح پر پاکستان کا مصبت امیج پیش کیا
02:10ملک کے اندر اسے صدارتی اوارڈ ہلال امتیاز سے نوازا گیا
02:16جسے اس نے اپنے علاقے کے عوام کی محنت اور تعاون کا نتیجہ قرار دیا
02:21اس وقت اس کی شخصیت محنت دیانتداری اور عوامی خدمت کی علامت بن چکی تھی
02:27اسے اکثر اخری حقیقی نواب کے طور پر یاد کیا جاتا تھا
02:32جو روایات اور ترقی میں توازن قائم کرتا تھا
02:35انیس سو نوے کی دہائی آتے آتے حالات بدلنے لگے
02:40ملک میں بدنوانی سیاسی افراتفری اور فرقہ وارانہ تناؤ بڑھنے لگا
02:45نواب صادق اباسی کا اصول پرست غیر متاسب اور تمیری سیاسی انداز
02:51نئے دور کی اکٹ پتلی اور اجھگالو سیاست میں اجنبی لگنے لگا
02:56اس کے اپنے خاندان کے اندر بھی تقسیم ہو گئی
03:00اس کے چھوٹے بھائی جو ہمیشہ حسد کی نگا سے دیکھتے تھے
03:05نے اس کے خلاف سازشوں کا جال بانینا شروع کیا
03:08جائیدادوں کے تنازات پیدا کیے
03:10اس کی بیٹی مریم کی شادی کے بعد کینیڈا چلی جانے پر وہ مزید تنہا ہو گیا
03:16معاشی بدحالی اور انتظامیہ میں بدنوانی کی وجہ سے
03:20اس کے ٹرسٹ کے کئی منصوبے بھی متاثر ہوئے
03:23پھر انیس سو اٹھانوے میں ایک شدید دل کا دورہ پڑا
03:27جس نے اس کی صحت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا
03:30اسے زیادہ تر وقت کراچی کے ہسپتال اگھر پر گزارنا پڑا
03:35اس کی جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ اس کی سیاسی اور سماجی اثر پذیری بھی کم ہوتی گئی
03:42وہ دون جدید کی تیزی
03:44نوجوان نسل کی بے سبری اور قومی اقدار کے زوال پر گہرے دکھ اور مایوسی کا شکار ہو گیا
03:50اس کا قلعہ عباسیہ بھی اپنی رونک ہو رہا تھا جیسے اس کی زندگی کے آخری ایام کی علامت
03:57آخری سالوں میں اگرچہ جسمانی طور پر کمزور لیکن نواب صادق عباسی کا ذہن بلکل چست تھا
04:06اس نے اپنی یاد داشتیں لکھنے کا فیصلہ کیا ہے شہزاد خاک میری ناتمام کہانی
04:12اس کتاب میں اس نے نہ صرف اپنے ذاتی تجربات بلکہ پاکستان کی سیاسی اور سماجی تاریخ کے اہم مور
04:19اپنے مشاہدات اور نصیحتیں درشکین
04:22اس نے اپنی تمام باقی جائدات کا ایک بڑا حصہ عباسی ٹرسٹ کے لیے وقف کر دیا
04:28خاص طور پر اس بات پر زور دیا کہ لڑکیوں کی تعلیم اور بنیادی صحت کی سہولیات پر توجہ دی جا
04:35اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کو جو اب باہر رہتے تھے خطوط لکھے جن میں انہیں اپنی ثقافت زبان اور وطن سے جڑے رہنے کی تلقین کی
04:45اپنے آخری دنوں میں وہ اکثر قلعہ عباسیہ کی برامدے میں بیٹھ کر اپنے بچپن کی یادیں تازہ کرتا
04:52لوگوں سے ملتا جو اب بھی اسے دیکھنے آتے اور دعا کرتا
04:56اس نے اپنے قریبی ساتھیوں کو تاقید کی کہ اس کی تدفین اسی سادہ قبرستان میں ہو جہاں اس کے آباؤ اجداد دفن ہیں
05:03کوئی شاہی مزار نہ بنایا جائے
05:05اس کا مقصد یہ تھا کہ اس کا نام اس کے کاموں سے زندہ رہے پتھروں کی امارتوں سے نہیں
05:12پندرہ جون دو ہزار پانچ کی صبح کراچی کے ایک ہسپتال میں اسی سال کی عمر میں نواب صادق عباسی نے اپنی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند کر لے
05:23اس کے ساتھ ایک دور کا خاتمہ ہو گیا
05:26اس کی وفات کی خبر سن کر پورے علاقے میں سوگ کی لہر دور گئی
05:31ہزاروں لوگ جن میں بولے کسان جنہیں اس نے پانی دیا تھا وہ عورتیں جن کے بچے اس کے اسکولوں میں پڑھتے تھے وہ مریض جنہیں اس کے ہسپتالوں میں علاج ملا تھا
05:42اس کی آخری رسومات کے لیے قلعہ عباسیہ کے قریب والے قبرستان پہنچے
05:47اس کی وسیعت کے مطابق سادہ سی نمازن جنازہ کے بعد اسے اپنے والد کے پہلوں میں سپرن خاک کر دیا گیا
05:55کوئی بڑا مزار نہیں بنایا گیا
05:57اس کی موت نے ایک خلا چھوڑ دیا لیکن اس کا ورثہ زندہ رہا
06:03عباسی ٹرسٹ آج بھی تعلیم اور صحت کی روشنی پھیلا رہا ہے
06:07صادق کینال آج بھی سیکڑوں دے ہاتھ کو سہراب کرتی ہے
06:12اس کی لکھی ہوئی کتابیں اور تقریریں نوجوانوں کے لیے مشل رہا ہے
06:17اس کی سادگی، دیانتداری، علم دوستی اور بیلوس عوامی خدمت کی داستانیں
06:23لوگ گیتوں اور بزرگوں کی زبانی کہانیوں میں آج بھی زندہ ہے
06:27نواب صادق عباسی کی کہانی ایک شہزادے کی نہیں
06:31بلکہ ایک ایسے انسان کی کہانی ہے جس نے شاہی ورثے کو عوام کی بہبود کے لیے وقف کر دیا
06:37جو اپنی زندگی کے اختتام پر شہزاد خاک بن کر ہمیشہ کے لیے دلوں میں بس گیا
06:43اگر ہماری ویڈیو آپ کو اچھی لگی ہے تو برائے مہربانی ہمارے چینل کو سبسکراب
06:49اور لائک کر کے بیل آئیکن کا بٹن ضرور دبائیں تاکہ ہر نئی آنے والی ویڈیو آپ کو بروقت مل سکے