Khudai Ehtamam-e-Khushk-o-Tar Hai Khudawand! Khudai Dard-e-Sar Hai
To be God is to have charge of land and sea; Being God is nothing but a headache!
Walekin Bandagi, Astagfirullah! Ye Dard-e-Sar Nahin, Dard-e-Jigar Hai
But being a servant of God? God forbid! That is no headache—it is a heartache!
(Bal-e-Jibril-114) Khudai Ehtemam-e-Khushk-o-Tar Hai
خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے خداوندا! خدائی دردِ سر ہے و لیکن بندگی، استغفراللہ! یہ دردِ سر نہیں، دردِ جگر ہے
بالِ جبریل کی یہ رباعی بظاہر عام قاری کو چونکا دینے والی محسوس ہو سکتی ہے۔ الفاظ جیسے "خدائی دردِ سر ہے" پہلی نظر میں گویا بےباکی کا تاثر دیتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ یہاں صوفیانہ انداز میں کائنات اور بندگی کے بوجھ اور حقیقت کا موازنہ کر رہے ہیں۔ یہ وہ اسلوب ہے جو اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کئی جگہوں پر اختیار کیا ہے؛ زبان بظاہر سخت، مگر معنی انتہائی لطیف اور روحانی۔
"خدائی اہتمامِ خشک و تر ہے"
یہاں "خشک و تر" سے مراد خشکی اور پانی کی پوری کائنات ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ خدائی، یعنی ربوبیت اور نظامِ عالم چلانا، ایک ایسا اہتمام ہے جو ہر لمحے جاری رہتا ہے۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔ ہر مخلوق کا رزق، اوقات، تقدیر، ہر حرکت… سب اسی نظام کے تحت چل رہی ہیں۔
"خداوندا! خدائی دردِ سر ہے"
یہاں “دردِ سر” مجازی طور پر استعمال ہوا ہے، یعنی بڑی ذمہ داری، بڑا بوجھ۔ زبان بظاہر عام محاورہ لگتی ہے، مگر مقصد یہ ہے کہ کائنات کا انتظام کوئی آسان کام نہیں۔ یہاں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے لیے نہیں کہہ رہے کہ اسے بوجھ ہے (معاذاللہ)، بلکہ انسانی فہم کے قریب لانے کے لیے ایک تشبیہ دے رہے ہیں۔
"و لیکن بندگی، استغفراللہ! یہ دردِ سر نہیں، دردِ جگر ہے"
یہاں اصل بات سامنے آتی ہے۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بندگی تو اس سے بھی زیادہ عظیم، گہری اور اندر تک جلانے والی کیفیت ہے۔
دردِ سر : بیرونی کام، ذمہ داری دردِ جگر : اندر کا درد، عشق، تڑپ، فناء فی اللہ
یہاں اقبال رحمۃ اللہ علیہ “استغفراللہ” کہہ کر اپنی گفتگو کے احترام اور اللہ کے سامنے ادب کو مزید واضح کرتے ہیں، یعنی: اے اللہ! میں تیرے حضور سراپا احترام ہوں، یہ انداز محض مجازی تشبیہ ہے۔
اس کے بعد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بیان فرماتے ہیں کہ بندگی کا درد دراصل ایک عاشقانہ تڑپ ہے؛ ایسی آگ جو سر کو نہیں، دل اور جگر کو جلا کر انسان کو حقیقتِ عشق کے قریب لے جاتی ہے۔
یہ وہی کیفیت ہے جسے ہم “دردِ عشق” کے نام سے جانتے ہیں۔
Be the first to comment