ادبی تنظیموں، اداروں اور ان کا دائرۂ عملزبانوں کے فروغ کے لیے مختلف ادبی تنظیمیں اور اکیڈمیز برسوں سے سرگرم عمل ہیں۔ وہ سیمینارز، مشاعرے، مذاکرے اور فکری نشستوں کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ زبان و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ نئی نسل کو اپنے تہذیبی اور فکری ورثے سے جوڑا جا سکے۔ تاہم، ان کوششوں کا اثر محدود دائرے تک محسوس ہوتا ہے۔ اکثر سیمینارز مخصوص حلقوں تک محدود رہ جاتے ہیں، جن میں زیادہ تر وہی چہرے دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی ادب کے شائق ہیں۔ یوں یہ سرگرمیاں زبان و ادب کے موجودہ چاہنے والوں کے لیے تو تازگی کا باعث بنتی ہیں، مگر نئی نسل کے لیے ان میں وہ کشش نہیں جو ڈیجیٹل دنیا کی چمک دمک میں ان کی توجہ کھینچ سکے۔
نئی نسل اور ادب کے درمیان بڑھتا فاصلہنئی نسل کے لیے دنیا اب کتاب کے صفحے میں نہیں بلکہ اسکرین کی روشنی میں سمٹ آئی ہے۔ یوٹیوب، انسٹاگرام، فیس بُک نے ان کے اظہار کے انداز بدل دیے ہیں۔ لمبی تحریروں کی جگہ مختصر ویڈیوز نے لے لی ہے۔ اس صورتحال میں ادب کو زندہ رکھنے کے لیے پرانے طریقے کافی نہیں رہے۔ ماہرین کی رائے، ادب کا فکری تسلسل اور اداروں کا کردارماہرین کا ماننا ہے کہ ادبی اداروں کو اب سوچنا ہوگا کہ ادب کو وہیں پہنچایا جائے جہاں نئی نسل موجود ہے یعنی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز۔ آن لائن مشاعرے، ڈیجیٹل لائبریریز، ای بکس، آڈیو بکس، پوڈکاسٹس اور یوٹیوب لٹریری چینلز وہ نئے ذرائع ہیں جن کے ذریعے ادب کو ایک نئی زندگی دی جا سکتی ہے۔ ادب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک فکری تسلسل ہے جو قوموں کی شناخت اور شعور کی علامت ہوتا ہے۔ اگر یہ تسلسل ٹوٹ جائے تو زبان محض اظہار کا ذریعہ نہیں رہتی، بلکہ اپنی روح کھو بیٹھتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ادبی اداروں، اکیڈمیوں اور تنظیموں کو روایت اور ٹیکنالوجی کے درمیان ایک فکری پل بننا ہوگا۔ ان کے ذمے صرف ماضی کی حفاظت نہیں بلکہ مستقبل کی تعمیر بھی ہے۔ انہیں نئی نسل کو یہ احساس دلانا ہوگا کہ ادب محض تاریخ نہیں، بلکہ زندہ گفتگو ہے جو آج بھی دلوں کو چھو سکتی ہے۔
Be the first to comment