Skip to playerSkip to main content
The shocking untold story of Javed Iqbal, Pakistan’s most dangerous serial killer who confessed to murdering over 100 children. This true crime documentary reveals the dark past, police investigations, and the chilling psychology behind Pakistan’s worst criminal.

⚡ Watch till the end to uncover the truth behind Javed Iqbal’s life, crimes, and the shocking way justice was served.

🔎 Keywords Covered: Javed Iqbal, Pakistan serial killer, true crime, dark history of Pakistan, real crime documentary.

#Hashtags (for Dailymotion SEO):
#JavedIqbal #PakistanCrime #TrueCrimeDocumentary #SerialKiller #CrimeStory #UntoldStory #PakistanHistory
Transcript
00:00Late November 1999
00:18Lahore Police
00:21in a room for duty duty
00:22and they check their mail box
00:26so they have a letter
00:27A Confession
00:30My letter is 100 per
00:34end of the year
00:35My mission is complete
00:37My message will be complete
00:39My message will be complete
00:39I will be complete
00:41My mother will be complete
00:42I will be complete
00:43I will be complete
00:45in the future of the matter
00:47I will be complete
00:49A letter
00:51One victim's name
00:52was a victim's name
00:53and was a victim's name
00:55سب کچھ ڈیٹیل میں لکھا ہوا تھا
00:57کتنا ٹائم
00:58ایسٹ کو لگا
00:59اس کی باڈی ڈیزولف کرنے میں
01:00اور آخر میں
01:01ایک مکان کا پتہ دیا ہوا تھا
01:0316B
01:04Rawi Road
01:07Deputy Superintendent of Police
01:09Tariq Kembo
01:10اپنے ساتھ کچھ
01:11officers لے کر
01:12اس پتہ پر پہنچتے ہیں
01:13دروازہ کھٹ کھٹانے پر
01:15ایک شخص باہر آتا ہے
01:1630 سالہ
01:18جعوید اقبال
01:20پولیس اسے اس خط کے متعلق کچھ سوال کرتی ہے
01:22اور مزید ڈیٹیلز مانگتی ہے
01:24جعوید کا پرتاؤ بلکل بدل جاتا ہے
01:26اور اپنی سر پر بندوق رکھ کے
01:28پولیس کو دمکھاتا ہے
01:29کہ اگر وہ یہاں سے نہ آگئی
01:31تو وہ خود کو گولی مار دے گا
01:33پولیس بنا اس کو روکے
01:35بنا اسے کوئی مزید سوال پوچھے
01:37اور بنا گھر کی کوئی تلاشی لیے
01:39وہاں سے چلی جاتی ہے
01:40انہیں یہ لگتا ہے کہ یہ کوئی مزاگ کر رہا ہے
01:42یہ آدمی کیا کسی کا قتل کرے گا
01:44اور وہ بھی سو بچوں کا
01:46They had no idea
01:48that they just walked away from the worst serial killer
01:51in Pakistan's history
02:10ڈیلی جنگ نیوزپیپر آفیس کے باہر ایک پیکج آتا ہے
02:31جو جمیل چشتی کے حوالے کر دیا جاتا ہے
02:33جو اس دوران کی چیف کرائم ریپورٹر تھے
02:36وہ پیکج کھولنے پر چشتی صاحب کو بچوں کی تصاویر ملتی ہیں
02:40اور ایک خط جس پر لکھا تھا
02:43آج میرے ایک سو بچوں کو قتل کرنے کا حدف پورا ہوتا ہے
02:46آپ کو ساتھ ان تمام بچوں کی تصاویر ملے گی
02:49کون ہیں وہ اور کہاں سے
02:51میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے اخبار کے ذریعے دنیا کو بتاؤ
02:55کہ میں نے کیا کیا
02:57میں اپنی پتیس صفوں کی ڈائیری آپ کو دے رہا ہوں
02:59وہ میرے سو قتلوں کا مکمل کنفیشن ہے
03:02آپ میرے مکان پر جاؤ تو سب ثبوت مل جائے گا
03:05جب آپ کو معلوم ہوگا کہ میں نے کیا کام کی ہے
03:08تو پوری دنیا ہل کے رہ جائے گی
03:13چشتی صاحب کے سامنے دو پوسیبلیٹیز آتی ہیں
03:16یا تو جوید کو کوئی پھسانے کی کوشش کر رہا ہے
03:18اور یا تو اس نے واقعی یہ جرم کی ہے
03:20وہ بغیر وقت ضائع کیے اس مکان پر پہنچتے ہیں
03:23لیکن دروازے پر تالہ لگا ہوتا ہے
03:25چشتی صاحب دیوار پھلان کے داخل ہوتے ہیں
03:27تو سامنے انہیں پچاسی جوتوں کے پیر ملتے ہیں
03:30اور ایک بوری جس میں بچوں کے کپرے ہوتے ہیں
03:33ایک اور کمرے میں ایسیڈ کے ڈرم پرے ہوتے ہیں
03:36اور ان میں سے بدبودار سمیل آ رہی ہوتی ہے
03:38میں نے جب ڈرم کھولا تو آپ سوچ بھی سکتے ہیں میرے کیا حالت ہوئی
03:44اس میں لوٹھڑے تھے اور ایسیڈ سے میرے ہاتھ جل گئے
03:49تو وہ سارا کچھ جو جو بیدی قبال لگا سارا کرائیم چین اسی طرح تھا
03:53دیوار پر انہیں کارڈز چپکے ہوئے ملتے ہیں جس پر الگ الگ ڈیٹیلز لکھی ہوئی تھی
03:58کچھ باڈیز کو میں نے جان کے پوری طرح ڈیزول نہیں کیا
04:02تاکہ اتھورٹیز ان کی تصدیق کر سکیں
04:04اور میں اب دریائے راوی پر خودکشی کرنے جا رہا ہوں
04:08اخبار یہ خبر پبلک تک پہنچاتی ہے
04:12اور ساتھی ستاون بچوں کے نام اور پتہ
04:15جس کے بعد اس مکان کے باہر والدین کا رشت لگ جاتا ہے
04:18and they broke down in uncontrollable sobs
04:25when they recognized the clothes and shoes of their children
04:29Javed Iqbal was on the run
04:33and the biggest manhunt Pakistan has ever seen was launched
04:37Javed Iqbal ڈیلی جنگ اخبار کے دفتر پر دفتق دیتا ہے
04:52اور اندر داخل ہوتے ہی اپنا سرینڈر پیش کرتا ہے
04:56میں ہوں Javed Iqbal
04:59ایک سو بچوں کا قاتل
05:01مجھے اس دنیا سے نفرت ہے
05:03اور مجھے اپنے کیے پر کوئی گلہ نہیں
05:05میں مرنے کے لئے تیار ہوں
05:07Javed Iqbal اگلے کچھ گھنٹوں تک جرنلس سے بات کرتا ہے
05:11اور انہیں ایک ایک واقعے کی ڈیڈیلز دیتا ہے
05:14دفتر میں بیٹے لوگ authorities کو انفارم کرتے ہیں
05:40اور کچھ ہی منٹوں میں
05:42دیروں فوجی اور پولیس افسر اس بلڈنگ کو چاروں طرف سے گھیڑ لیتے ہیں
05:46انٹیروگیشن کرنے پر Javed نے بیچارگی کا اظہار تو کیا
05:49لیکن صرف اپنے لئے
05:51اس کا کہنا تھا کہ وہ پولیس سسٹم کی لا پروائی اور نا انصافی کا شکار تھا
05:55جاوید ایک ویلدی فیملی کی چھٹی اولاد تھی
06:06چار بہنیں اور پانچ بھائی
06:08اس کے والدین کے مطابق وہ بہت ذہین اور چلاک تھا
06:11لیکن اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ مسلسل کمپیریزن کے قارن اس میں سویر اگریشن پیدا ہونے لگا
06:16وقت کے ساتھ وہ اپنی فیملی کے لیے پریشانی کھری کرنے لگا
06:19اور اکثر رات میں سب کو جگا کر ایک لائن میں کھرے ہونے کا کہتا تھا
06:23جاوید کے بھائی کے مطابق وہ اپنے من کی چیز لے کر رکھتا تھا
06:26اور اگر اس کا باپ منہ کرے تو خود پر تشدد شروع کرتے تھا
06:30اسلامیہ کالٹ سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد جاوید کے باپ نے اسے ایک لوہے کا بزنس سیٹ اپ کر کے دیا
06:36اور وہاں وہ موسٹلی بچوں کو ہائر کرتا تھا کیونکہ انہیں تنخواہ کم دینی پڑتی تھی
06:40لیکن اس ہائرنگ کے پیچھے ایک اور وجہ تھی
06:43جاوید وہ بچوں سے سیکشولی اٹریکٹ ہوتا تھا
06:49اس کے باوجود جاوید کی دو بار شادی ہوئی لیکن دونوں شادیاں صرف ایک سال تک رہی
06:55اس نے ایک آرکیڈ ویڈیو گیم شاپ کھولی اور جیسے ایک لولی پاپ پر مکیاں جمع ہوتی ہیں
07:01گلی کے بچے وہاں سارا دن جمع ہو کر گیم کھیلتے تھے
07:05جاوید نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور وہ زمین پر سو کا نوٹ رکھتا تھا
07:09اس امید میں کہ کوئی بچہ یہ نوٹ ضرور اٹھائے گا
07:12پھر وہ شک میں آ کر بچوں کو لائن میں کھڑا کرتا
07:14اور ایک ایک کر کے انہیں پرائیویٹ ٹروم لے جا کر تلاشی دینے کو کہتا
07:18اور ساتھ ہی ان بچوں کے ساتھ بیانک حرکتیں کرتا تھا
07:21بچوں کے والدین نے انہیں گیمنگ زون جانے سے منع کر دیا تھا
07:24جس کے بعد جاوید نے ایک جم اور ایکویڈیم کھولا
07:27ایکزیکلی اسی مقصد کے لیے
07:30بائی نائنٹین نائنٹی سیون جاوید کو شدید فائنینشل کرائیسز کا سامنا کرنا پڑا
07:36کیونکہ جن مقصد سے وہ بچوں کو اٹریکٹ کرتا تھا
07:39اس پر پیسے بہت لگتے تھے
07:41اس نقصان کے باعث اسے اپنی پروپٹی بیشنی پڑتی ہے
07:44اور وہ لاہور شہر کا رخ کرتا ہے
07:46جاوید کو اس شہر میں پرفیکٹ ہنٹنگ سپورٹ ملتا ہے
07:50داتا دربار جو ساؤت ایشیا کا سب سے بڑا صوفی شرائن ہے
07:54ادھر بے شمار بچے کھانے کی تلاش میں آتے تھے
07:57جاوید انہیں رہائش اور کھانے کے بہانے اپنے گھر لے آتا
08:00مزید کچھ بچے اسے بس کے اڈوں سے ملتے تھے
08:03جو اپنے گھر سے بھاگے ہوئے تھے
08:08جاوید اقبال کی لائف میں سب سے بڑا ٹرننگ پوائنٹ تاباتا ہے
08:11جب وہ داتا دربار سے اٹھارہ سال کی بچے کو گھر لاتا ہے
08:16جاوید نے اس کے ساتھ خوب زیادتی کی
08:18لیکن رات کو جب جاوید بستر پر سو رہا تھا
08:21اس بچے نے جاوید کے سر پر رائفل کا ہینڈل مارا
08:24پورے محلے میں چیخنے چلانے کی آواز آئی
08:26پولیس کے پہنچنے پر جاوید زمین پر گرا ہوا تھا
08:29اور اس کے سر سے مسلسل خون بہرا تھا
08:31انکوائری کرنے کے بعد جاوید پر ریپ کا چارج لگتا ہے
08:34اور پولیس اسے سزا کے طور پر سو کورے مارتی ہے
08:40اس مار پیٹ کی وجہ سے جاوید بائیس دن کومے میں رہتا ہے
08:43جاوید کی فیملی اس کے میڈیکل بلز دینے سے انکار کر دیتی ہے
08:47لیکن اس کی ماں ہوتی ہے جو اس کے لیے خوب آنسو بہاتی ہے
08:52کلینکل سائیکولوجسٹ اکتر علی کا کہنا ہے
08:54کہ وہ واقعہ جاوید کے اندر کا راکشفت باہر لاتا ہے
08:58جاوید نے کبھی نہیں سوچا تھا
09:00کہ وایلنس اور اگریشن اس کے خلاف بھی ہو سکتا ہے
09:03جاوید کنٹینیو تو رن آؤٹ آف منی
09:05and that forced him to move to a rental house
09:0816B Raavi road
09:11and now
09:12جاوید was set for revenge
09:18مجھے اتنا مالا گیا
09:19کہ میرا سر کو چل دیا
09:21اور نام مجھ سے چلا گیا
09:22میں نے یہ سب اس کے بدلے میں کیا ہے
09:24میں ایک سو ماں کو رولاؤں گا
09:26بالکل جیسے میری ماں میرے لئے روئی تھی
09:29This gives us enough psychological explanation behind جاوید's evil actions
09:36سو کوروں کا بدلہ
09:38سو بچوں سے
09:41May 1999 سے جاوید اپنے بدلے کا سلسلہ شروع کرتا ہے
09:46اور صرف 147 دن میں پورے شہر سے سو بچے غائب ہوتے ہیں
09:53سب سے پہلے وہ بچوں کی تصویر لیتا تھا
09:56پھر وہ انہیں باہر اچھا سا کھانا کھلاتا
10:01گھر واپسی لانے کے بعد
10:03ان کے ساتھ گھنونی حرکتیں کرتا
10:05اور آخر میں ان کے گلے پر چیند باندھ کر مار دیتا
10:09پھر ان بوڈیز کو ایسٹ کے ڈرم میں ڈال دیتا تھا
10:12This continue to happen to 100 innocent children
10:17پولس کو یہ مکمل confession پیش کرنے کے بعد
10:24ان وکٹمز کی باڈیز کو identify کیا گیا
10:27اور پوئے لاہور میں صرف ماں کی رونے کی آواز تھی
10:31سرکیں خالی رہنے لگیں
10:33اور ماں باپ نے اپنے بچوں کو سکول جانے سے بھی روپ دیا
10:36ایک سو میں سے صرف 57 بچوں کی تصدیق ہو سکی تھی
10:39کیونکہ زیادہ تر بوڈیز ایسٹ میں پوری طرح ڈیزولو ہو گئی تھی
10:47February 18, 2000
10:50جعوید اقبال was formally inducted
10:53اور ساتھ ہی اس کے تین ساتھی
10:55ساجد جس کو 686 سال کی قید سنائی گئی
10:58اور باقی ندیم کو 186 سال اور سابر جو صرف 13 سال کا تھا
11:03اپنی زندگی کے اگلے 42 سال جیل میں دیکھ رہا تھا
11:07جعوید کا خود کو surrender کرنا
11:09جنگ کے دفتر تشریف لانا
11:11اور پولیس کو ثبوت کے ساتھ مکمل confession دینے کے باوجود
11:15وہ کوٹ میں اپنی innocence claim کرتا ہے
11:17اس کے claim کی مطابق اس نے صرف اس لیے confess کیا تھا
11:20تاکہ سرکوں پر رہنے والے بچوں کو attention مل سکے
11:23اور انہیں ایک اچھا محول دیا جائے
11:25اس کے بعد جعوید اپنی statement دوبارہ change کرتا ہے
11:28اور کہتا ہے کہ بیس لوگوں نے اس کے گھر آ کر ان بچوں کا قتل کیا
11:33اور وہ کسی کو نہ بچا سکا
11:35جس کے گلے میں آ کر اس نے یہ confession دیا
11:37however on 9th of March 2000
11:40جعوید changed his story yet again
11:43وہ کوٹ میں بتاتا ہے کہ actually کوئی بھی بچہ قتل نہیں ہوا
11:46اور یہ سب ایک publicity stunt تھا
11:48کوٹ میں موجود جج یہ تینوں statements کو reject کر دیتا ہے
11:51جج اللہ بھاک شرانجہ کے سر پر پورے ملک کا بوجھ تھا
11:55لوگ سارا دن کوٹ کے باہر ہرتال کرتے
11:58اور انصاف کی آواز بلند کرتے تھے
12:00جعوید کو وہ سزا سنائی جاتی ہے
12:02جو پاکستان کی تاریخ میں آج تک نہیں ہوا
12:07جعوید اقبال کو منارے پاکستان لے جا کر
12:10اسی چین سے پھانسی دی جائے گی
12:12جس سے اس نے بچوں کا قتل کیا
12:14اس کی باڈی کے سو ٹکرے کیے جائیں گے
12:17اور باری باری انہیں ایسڈ میں ڈبویا جائے گا
12:20یہ سزا کا اعلان سن کر نہ صرف پورا ملک بلکہ فورین انجیوز بھی الرٹ ہو جاتی ہیں
12:27اس دوران کے انٹیریئر منسٹر نے اس سزا کی مضمت کرتے ہوئے کہا
12:31کہ یہ سزا ہیومن رائٹس کی وائلیشن ہے
12:33اور کچھ فورین انجیوز بھی جعوید کی سپورٹ کو آ پہنچی
12:37جعوید اقبال کے ڈیفنس لوئر کو موت کی دمکیاں آنے لگیں
12:40اور انہیں سطیفہ دینا پڑا
12:41اور جعوید کو جو سزا سنائی تھی وہ اب کنفرم ہو چکی تھی
12:45As we are coming towards the conclusion of this story
12:49we ended up having more questions than answers
12:539th of October 2001
12:55In block 7 of the maximum security prison in court لگپت
13:00جعوید اقبال was found dead
13:02along with his accomplice ساجد
13:05initial report سے ظاہر ہوا
13:06کہ جعوید اور ساجد نے اپنی کمیز کا پھندہ بنا کر خودکشی کی ہے
13:10لیکن مزید investigation کے بعد پتہ چلتا ہے
13:13کہ رات 10 سے 2 بجے تک CCTV کیمراز بند تھے
13:17اور اس دوران گارڈ بھی سو رہا تھا
13:19دونوں مجرم کا ایک ہی طرح اور ایک ہی ٹائم پر مر جانا
13:23ہم ویورز کو صرف شک میں ڈالتا ہے
13:25کہ کیا انہوں نے واقعی اپنی جان لی
13:27اور یا انہیں مروایا گیا تھا
13:29اس واقعے کو بیتے 20 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں
13:36لیکن ان بچوں کے والدین کا صدمہ ابھی بھی تازہ ہے
13:40اس کیس کے پیچھے وجہ اور اس کے امپیکٹ کو
13:44انڈر ایسٹیمیٹ نہیں کیا جا سکتا
13:46the horror, brutality and violence
13:48is still lingering in the public unconsciousness
13:51while also raising many questions
13:54for the departments of the country
13:56who had pledged to keep us safe
13:58one can only think of those boys and their families
14:04and hope that such atrocities never ever happen again
Be the first to comment
Add your comment

Recommended