- 4 months ago
Urdu story Amber_Naag_Maria___Roohon_Ka_Sheher___EP_5_Part_2____Urdu_Hindi_Horror_Story
Category
🎥
Short filmTranscript
00:00:00اسلام علیکم نئی ویڈیوز کے لیے چینل کو سبسکرائب ضرور کیجئے اور بیل آئیکن کے بٹن کو دبا دیجئے شکریہ
00:00:08پیش خدمت ہے کہانی امبر ناگ ماریا کی پانچمی قسط روحوں کے شہر کا دوسرا حصہ
00:00:31اب دور سے زمین کی سیاہ لکیر دکھائی دینے لگی ملاہوں نے خوشی سے جہاز پر شور مچا دیا کہ زمین نظر آ گئی
00:00:38یہ لکیر آہستہ آہستہ قریب آ گئی اور پھر دور سے درختوں کی چوٹیاں دکھائی دینے لگیں
00:00:44ملک سندھ کے ساحل پر جہاز پہنچ چکا تھا
00:00:46ساحل کے ساتھ لگتے ہی امبر نے کپتان سے کہا کہ اب وہ جا رہا ہے اور پھر کبھی اس سے ضرور ملے گا
00:00:52میں خوش قسمت ہو امبر اگر تم سے پھر ملاقات ہوئی
00:00:55میں مہنجو دلو جا رہا ہوں جب وہاں سے واپس ہوا تو ضرور ملاقات کروں گا
00:00:59ہو سکتا ہے مجھے تمہارے ہی جہاز پر واپسی کا سفر کرنا پڑے
00:01:02میں ہر پھیرے پر تمہارا انتظار کیا کروں گا
00:01:05امبر کپتان سے رخصت ہو کر بندرگاہ سے باہر نکل آیا
00:01:08یہ ملک سندھ کی بندرگاہ تھی جہاں کچھے مخروطی مکان کھڑے تھے
00:01:12محصول لینے والے جگہ جگہ مسافروں کی تلاشی لے رہے تھے
00:01:16ایک سپاہی نے امبر کی بھی تلاشی لینے کی کوشش کی
00:01:18امبر نے کہا اس کے پاس سوائے دو کپڑوں کے جوس نے پہن رکھے ہیں
00:01:22اور چند اشرفیوں کے اور کچھ نہیں
00:01:24مگر سپاہی نے امبر کے ساتھ گستاخی کی اور اسے گردن سے پکڑ کر جھنجھوڑا
00:01:29بکواس کرتے ہو
00:01:30امبر نے اپنا بایاں ہاتھ سپاہی کی گردن پر رکھ دیا
00:01:33سپاہی تڑپ کر پرے جاگرہ اور بے ہوش ہو گیا
00:01:35امبر نے اپنے کپڑے سمیٹے اور بندرگاہ کی عمارت سے باہر نکل کر بازار میں آ گیا
00:01:40یہاں دکانیں کھولی تھی
00:01:41اور سائیبانوں کے نیچے لوگ تربوز اور مٹی کے کھلونے اور سراہیاں فروخت کر رہے تھے
00:01:46امبر نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ مہینجو دڑو وہاں سے کتنی دور ہیں
00:01:49دکاندار نے اسے بتایا کہ مہینجو دڑو وہاں سے کافی دور ہیں
00:01:53اور ایک کافلہ آج آدھی رات کو وہاں سے چلے گا
00:01:55امبر نے اس کافلے میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا
00:01:58اور اس کانوان سرائے کی طرف چل پڑا جہاں وہ کافلہ ٹھہرا ہوا تھا
00:02:01تھائیس جس بحری جہاز میں سوار تھی وہ شمالی افریقہ کے ساحل پر جا کر رکیا
00:02:06جس ڈاکو نے تھائیس کو سہرہ میں اغواہ کیا تھا
00:02:09اسے اس نے یرموک شہر کے ایک بردہ فروش کاچان کے ہاتھ فروخت کر دیا
00:02:13کاچان غلاموں اور کنیزوں کی تجارت کرتا تھا
00:02:16اور یرموک شہر کے باہر اس کے ایک بہت بڑی حویلی تھی
00:02:19اس حویلی میں وہ تھائیس کو لے آیا
00:02:21اور اس نے اپنے گھر اسے دوسری کنیزوں کے حوالے کر دیا
00:02:24یہ ساری کنیزیں مختلف ملکوں سے خرید کر لائی گئی تھی
00:02:27انہیں ڈاکو اغواہ کر کے لائے تھے اور کاچان کے ہاتھ فروخت کر گئے تھے
00:02:31یہ تمام بدنصیب اور غمزدہ عورتیں تھیں
00:02:34مگر چونکہ انہیں معلوم تھا کہ اب وہ وہاں سے فرار نہیں ہو سکتی
00:02:37اس لیے وہ سبر شکر کر کے بیٹھ گئیں
00:02:39وہ یہ سمجھ گئیں کہ ان کی قسمت میں یہی لکھا تھا
00:02:42لہٰذا انہوں نے اپنی قسمت کے لکھے کو قبول کر لیا
00:02:45ایک نئی کنیز تھائیس کو دیکھ کر خوش ہوئی
00:02:48اور انہیں صدمہ بھی ہوا
00:02:49انہوں نے تھائیس سے بوچھا کہ وہ کون ہے
00:02:51اور کس ملک سے آئی ہے
00:02:52تھائیس نے انہیں شروع سے لے کر آخر تک ساری کہانی بنا دی
00:02:55ایک سرخ بالو والی کنیز نے کہا
00:02:58میں ملک یر شغال سے آئی ہوں
00:02:59مجھے ایک ڈاکو نغواہ کیا تھا
00:03:01میری ماں اور بہن بھائیوں کو میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا گیا
00:03:04پھر بھی میں نے صبر کر لیا
00:03:06تم بھی صبر کرو
00:03:07دیوتاؤں کی یہی مرضی تھی
00:03:08اور ہم دیوتاؤں کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے
00:03:11لیکن تھائیس اب دیوتاؤں پر یقین نہیں رکھتی تھی
00:03:14دیوتاؤں پر سے اس کا یقین اٹھ گیا تھا
00:03:16وہ امبر کے رب پر ایمان لائی تھی
00:03:18اور اسے یقین تھا کہ اس کا رب ایک نائی دن اس کی مدد ضرور کرے گا
00:03:22اور وہ اس ضلیل کاچان کی قید سے آزاد ہو کر
00:03:24مہینجو دلو اپنے ماں باپ کے پاس جائے گی
00:03:27اسے امبر کبھی کبھی کبھی خیال آتا تو اس کا دل اداس ہو جاتا
00:03:30وہ سوچتی کہ جانے کہاں ہوگا اور اسے معلوم بھی ہوگا یا نہیں
00:03:33کہ تھائیس کو ڈاکو نغوا کر کے یرموک شہر میں فروخت کر دیا
00:03:36اور اب ظالم بردہ فروش کاچان کے حرم میں کنیز کی گھٹیا زندگی بسر کر رہی تھی
00:03:41تھائیس کپڑے پہن کر بناو سنگھار کر لو
00:03:44تو آج کچھ لوگ ہمیں دیکھنے آ رہے ہیں
00:03:46ایک کنیز نے تھائیس کے پاس آ کر کہا تھا
00:03:48تھائیس نے پوچھا وہ ہمیں کس لیے دیکھنے آ رہے ہیں برامکہ
00:03:51اگر ہم میں سے کوئی کنیز اسے پسند آ گئی تو وہ اسے خرید کر لے جائیں گے
00:03:54وہ خرید کر کہاں لے جائیں گے
00:03:56مجھے کیا حمل ہو
00:03:57برامکہ چلی گئی اور کچھا کان اندر آ گیا
00:03:59اس نے زور سے ہنٹر زمین پر پٹک کر کہا
00:04:02سب کنیزیں نئے نئے کپڑے پہن کر بناو سنگھار کر لیں
00:04:05اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گیا
00:04:07مجبوراں دوسری کنیزوں کے ساتھ تھائیس کو بھی نئے کپڑے پہنا کر
00:04:10اس کا بناو سنگھار کیا گیا
00:04:12بناو سنگھار کے بعد وہ بہت خوبصورت نظر آنے لگی
00:04:15دوسری کنیزوں نے رشک سے کہا
00:04:17دیکھو تھائیس کتنی حسین ہے
00:04:19وہ تو شہزادی لگ رہی ہے
00:04:21اسے ضرور آج پسند کر لیا جائے گا
00:04:23میں لانت بھیجتی ہوں اپنے پسند کرنے والوں پر
00:04:26آہستہ بولو تھائیس
00:04:27نہیں تو ظالم کاچان تمہاری کھال ادھر دے گا
00:04:30تھائیس خاموش ہو گئی
00:04:31دوپہر کو کچھ بردہ فروش آئے
00:04:33اور انہوں نے تھائیس کو پسند کر کے اسے خرید لیا
00:04:35کاچان کو اس کی قیمت ادا کی گئی
00:04:37تھائیس کو ساتھ لے کر مصر کی طرف روانہ ہو گئے
00:04:40اس زمانے میں ملک مصر میں بازار لگا کرتا تھا
00:04:43جہاں دنیا جہان کے غلام اور کنیزیں فروخت ہوتی ہیں
00:04:46یہ بازار اس وقت ساری دنیا میں بہت مشہور تھا
00:04:49امیر لوگوں کے ملازم دور دور سے آتے
00:04:51اور اپنے آقاؤں کے لیے غلام خرید کر لے جاتے تھے
00:04:54یرموک سے تھائیس کو ایک اٹری پر بٹھا دیا گیا
00:04:57اور دو روز کی مسافت کے بعد اسے مصر میں لیا گیا
00:05:00مصر میں تھائیس کی ایک مکان میں بند کر دی گئی
00:05:03بردہ فروش اس روز کا انتظار کرنے لگے
00:05:05جس روز مصر میں غلاموں اور کنیزوں کی فروخت کا بازار لگنا تھا
00:05:09تھائیس کی دیکھ بال کے لیے بوڑی عورت رکھ دی گئی
00:05:12اور مکان کے باہر تلوار والے سپائی کا پہرہ لگا دیا گیا
00:05:15بوڑی عورت تھائیس کا بہت دل بہلاتی
00:05:17مگر تھائیس ہر وقت قمزدہ رہتی
00:05:19ایک روز اس عورت نے کہا تھائیس تو کب تک اداس رہے گی
00:05:22اب تمہاری زندگی اسی طرح گزرے گی
00:05:24تجھے چاہیے کہ پرانی زندگی بھلا دے
00:05:26اسے یاد نہ کر اپنی زندگی قبول کر لے
00:05:28اس لیے کہ یہی زندگی تمہاری اصل زندگی ہے
00:05:31تو اگر چاہے بھی تو یہاں سے کبھی آزاد ہو کر کہیں بھاگ نہیں سکتی
00:05:35ایک کنیز نے بھاگنے کی کوشش کی تو اس و بردہ فروشوں نے قتل کر دیا
00:05:39اور لاش اسی مکان کے سہن میں دفن کر دی
00:05:42یہ سن کر ایک بار تو تھائیس کام گئی
00:05:44مگر جانے کیا بات تھی کہ جب سے اسے رب پر ایمان آیا تھا
00:05:48وہ ایک رب پر ایمان لائی تھی
00:05:49اس کے اندر سے خوف اور موت کا ڈر ختم ہو گیا
00:05:51وہ اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس کرنے لگی
00:05:54اسے یقین تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن یہاں سے ضرور فرار ہو جائے گی
00:05:58اس کے قسمت میں کنیزوں جیسی زندگی نہیں لکھی
00:06:00بھوڑی عورت نے اسے لاکھ ٹرائیا دھنکایا
00:06:03مگر تھائیس پر اس کا ذرا برابر بھی اثر نہ ہوا
00:06:05اس نے بھوڑی عورت کو تو کچھ نہ کہا
00:06:07لیکن دل ہی دل میں رب سے دعا مانگی
00:06:09کہ وہ اس کی مدد کرے اور اس ان بردہ فروشوں
00:06:12ظالموں کے پنجے سے نجات دلائے
00:06:13آخر وہ دن آ گیا
00:06:14جب مصر میں بازار میں غلاموں اور کنیزوں کی منڈی لگی
00:06:18تھائیس کو بردہ فروش دوسری چونی ہوئی خوبصورت کنیزوں کے ساتھ لے کر منڈی میں آ گئے
00:06:23اور اسے ایک سجے سجائے چبوترے پر کتار میں بٹھا دیا
00:06:26ایک غلام نے کھڑے ہو کر کنیزوں کو باری باری پکارنا شروع کر دیا
00:06:30اپنی باری پر ایک کنیز آ کر چبوترے پر کھڑی ہو جاتی
00:06:33غلام اونچی آواز میں اس کنیز کے خاندان
00:06:35اس کی شرافت ففداری اور خدمت گزاری اور اچھی آتوں کی تعریف شروع کر دیتا
00:06:39چبوترے کے سامنے کھڑے لوگ غلام کے لفظوں کو غور سے سنتے
00:06:43اور پھر کنیز کو دیکھتے اور کوئی نہ کوئی بولی دے کر اسے خرید دیتا
00:06:47اس طرح تھائیس کی باری آ گئی
00:06:49غلام نے تھائیس کی تعریف کرنا شروع کر دی
00:06:51کہ وہ بڑے اونچی خاندان کی عورت ہے
00:06:52ایک شریف اور نیک عورت ہے وہ بہت محنتی ہے
00:06:55وہ کنیز بن کر گھر کا سارا کام کاج سنبھال لیتی ہے
00:06:58اس کو کوئی بچہ نہیں جو اسے پریشان کرے
00:07:01اور جس کی خاطر وہ کام چور بن جائے
00:07:03مجمع میں کھڑے لوگ بڑے غور سے یہ سب سن رہے تھے
00:07:06اور تھائیس کو بھی غور سے دیکھ رہے تھے
00:07:08تھائیس ریشمی لباس میں بڑی باروب لگ رہی تھی
00:07:10اور اس کے چہرے پر ایک وقار اور عظمت دکھائی دے رہی تھی
00:07:13مجمع میں سے ایک سیاہ فام آدمی آگے بڑھا
00:07:16جس کی ایک آنکھ کانی تھی
00:07:18لیکن جس کے کانوں اور گلے میں بڑے قیمتی ہیرے جگمکا رہے تھے
00:07:21صاف معلوم ہو رہا تھا کہ وہ کسی ملک کا بہت امیر قبیر آدمی ہے
00:07:25اس نے بڑھ کر تھائیس کی بولی دس ہزار لگا دی
00:07:28ایک اور شہزادے نے بیس ہزار کر دی
00:07:30سیاہ فام نے چالیس ہزار کی آواز لگائی
00:07:33بردہ فروش خوش ہو رہا تھا کہ اس کے مال کی زیادہ سے زیادہ قیمت بڑھ رہی ہے
00:07:37ہوتے ہوتے بولی ایک لاکھ بیس ہزار ریال پر جا کر رو گئی
00:07:41سیاہ فام کانے نے گردن فخر سے بلند کر کے چاروں طرف دیکھا
00:07:45جیسے کوئی ہے جو اس سے بڑھ کر بولی دے مگر وہاں کوئی نہیں تھا
00:07:49شہزادہ بھی بھاگ گیا
00:07:50بردہ فروش نے بلند آواز میں چیخ کر کہا
00:07:53ایک لاکھ بیس ہزار ریال
00:07:54ایک
00:07:55ایک لاکھ بیس ہزار ریال دو
00:07:57ایک لاکھ بیس ہزار ریال تین
00:07:59مجمع تالیوں کی آواز سے گھونجو تھا
00:08:02بردہ فروش نے رقم گن کر اپنی جیب میں ڈالی اور
00:08:05تھائیس کو ایک سجی سجائی اونٹنی پر سوار کیا
00:08:07اور سیاہ فام اسے لے کر شہر انتاکیا کی طرف روانہ ہو گیا
00:08:11انتاکیا اس زمانے میں ایک بڑا ترقی آفتہ اور بارونک شہر تھا
00:08:15اور مصر سے چھے دن اور چھے رات کے سفر پر تھا
00:08:18دریائے نیرو شہر کے بیچ میں سے ہو کر گزرتا تھا
00:08:21چھے دن کے تکلیف دے سفر نے تھائیس کو تھکا کر ادم ہوا کر دیا
00:08:25انتاکیا پہنچ کر اسے ایک خوبصورت چھوٹے سے محل ملے جایا گیا
00:08:29اس محل میں جگہ جگہ خادم اور کنیزیں چل پھر رہی تھی
00:08:32جس کمرے میں تھائیس کو ٹھہرائے گیا
00:08:34اس کے باہر دلان میں ایک شاندار ہوس تھا
00:08:36جس میں فوارے لگے ہوئے تھے اور پانی میں سرخ اور نیدے رنگ کی مچھلیاں تیر رہی تھی
00:08:40تھائیس بہت تھکی تھی
00:08:41اس نے تھوڑا بہت کھانا زہر مار کیا اور سو گئی وہ سارا دن اور ساری رات سوئی رہی
00:08:46دوسرے روز اٹھی تو بلکل ترو تازہ تھی
00:08:49مگر اس کا دل مرشایا تھا
00:08:50اس لیے کہ وہ اپنے گھر میں نہیں تھی بلکہ قید میں تھی
00:08:53جہاں اسے منڈی سے بھیڑ بکری کی طرح خرید کر لیا گیا تھا
00:08:56دوپیر کے کھانے کے سیاہ فام کانا شہزادہ اس کے ساتھ شامل تھا
00:09:00وہ جنگلی بھالو کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑا
00:09:02وہ جنوروں کی طرح کھا رہا تھا
00:09:04شوورپا اس کی انگلیوں اور ہونٹوں کے کناروں پر سے بیرہا تھا
00:09:07تھائیس کو یہ منظر دیکھ کر کانے شہزادہ سے نفرت ہو گئی
00:09:11کھانے کے بعد وہ شہزادہ وہیں پاؤں پسار کر سو گیا
00:09:13وہ خراتے لینے لگا اس کے خراتوں کی آوازوں سے کمرہ گونج اٹھا
00:09:17تھائیس نے اس وقت رب کے آگے سجدہ کر کے دعا مانگی
00:09:20کہ اے رب مجھے ظالم وحشی انسان سے بچا
00:09:23اور میری ماں باپ کو مجھ سے ملا دے
00:09:25تو سب سے بلند اور سب سے افضل ہے
00:09:27تو ساری کائنات اور سارے انسانوں کا مالک ہے
00:09:29تیری ذات بے نیاز ہے اور تو سب کی دعا سنتا ہے
00:09:32میری بھی دعا سن پر مجھ پر رحم فرما
00:09:34مجھے واپس میرے وطن ماں باپ کے پاس پہنچا دے
00:09:36دعا مانگ کر تھائیس کو اپنا آپ
00:09:39ہلکا پھلکا محسوس ہونے لگا
00:09:40اسے یوں لگا جیسے رب عظیم نے
00:09:43اس کی دعا قبول کر لی ہے
00:09:44شہزادہ سو رہا تھا اور زور زور سے خراتے لے رہا تھا
00:09:47اچانک وہ اٹھ کر بیٹھ گیا
00:09:49اور تھائیس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑا
00:09:51اس کے زرد دانت چیتے کی طرح معلوم ہو رہے تھے
00:09:53اس نے کہا اے کنیز
00:09:54خود تو خوش قسمت ہے کہ میں نے تجھے
00:09:56ایک لاکھ بیس ہزار سونے کے سکے دے کر خریدا
00:09:59میں نے اس سے پہلے کبھی کسی کنیز کے لیے
00:10:01اتنی رقم خرچ نہیں کی
00:10:02لیکن میری خواہش تھی کہ میں تمہیں خرید کر
00:10:04اپنے گھر لاؤں اور اپنی بیوی بناوں
00:10:06تھائیس سر سے لے کر پاؤں تک کام کر رہ گئی
00:10:09اس نے دل ہی دل میں رب عظیم سے دعا کی
00:10:11کہ اے رب میری عزت اور ناموس کی حفاظت کرنا
00:10:14میں اپنے مرے ہوئے بدنصیب خواند کی امانت ہوں
00:10:16میں مرتے دم تک اپنے مرہوم خواند کی امانت بن کر
00:10:19زندگی بسر کرنا چاہتی ہوں
00:10:21سیاہ فام کان شہزادہ اسی وقت محل میں سب کو بلا کر اعلان کیا
00:10:25کہ وہ چاند کی پہلی طریقہ اپنی سب سے مہنگی
00:10:27اور سب سے چہیتی کنیز تھائیس سے شادی کرے گا
00:10:30محل کی تمام کنیزوں اور غلاموں نے خوشی سے نعرے لگائے
00:10:33اور سیاہ فام کان شہزادہ کے لیے دعائیں مانگی
00:10:36اور مبارک بات پیش کی
00:10:37تھائیس کی تو یہ اعلان سن کر جان نکل گئی
00:10:40اس نے اسی وقت فیصلہ کر لیا
00:10:41کہ چاہے اس کی جان نکل جائے
00:10:43وہ سیاہ فام کان شہزادہ کی قید سے ضرور نکل بھاگے گی
00:10:46اس مقصد کے لیے اس نے ایک دھیڑ عمر کی کنیز برامکہ کو چن لیا
00:10:50اسے یہ معلوم تھا کہ برامکہ شہزادہ کی بیوی رہ چکی ہے
00:10:54شروع شروع میں جب برامکہ خوبصورت تھی
00:10:56تو شہزادہ نے اس کی بڑی ٹہل سوا کی تھی
00:10:59مگر اس کے بڑی ہو جانے کے بعد
00:11:00اسے پھر کنیز بلا لیا
00:11:01تھائیس نے نہایت ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے
00:11:04برامکہ کی ہمدردیاں حاصل کی
00:11:06اس نے ایک روز برامکہ کو پاس بلا کر رونا شروع کر دیا
00:11:09جب برامکہ نے کہا
00:11:10تمہیں تو رونے کے بجائے خوش ہونا چاہیے
00:11:12کہ تجھے اس شہر کے سب سے دولت مند شہزادے
00:11:15نے اپنے لئے پسند کیا
00:11:16اور وہ تم سے بیعہ کر رہا ہے
00:11:17تھائیس نے کہا اے برامکہ
00:11:19تو عورت ہے
00:11:20اور ایک عورت ہی دوسری عورت کے دل کو ٹٹول کر
00:11:22اس کے دکھ درد کو سمجھ سکتی ہے
00:11:24میں ایک شریف ماں باپ کی بیٹی
00:11:26اور ایک مہنتی ماندار شخص کی بیوی ہوں
00:11:28تم ہی بتاؤ اگر تمہارا خوان زندہ ہوتا
00:11:30تو کیا تم کسی دوسرے مرد سے شادی کر سکتی تھی
00:11:33ہرگز نہیں
00:11:34تو پھر تم خود اندازہ لگاؤ
00:11:36کہ مجھے کس قدر صدمہ نہیں ہو رہا ہوگا
00:11:38میں اپنے خوان کے ہوتے ہوئے کسی مرد سے
00:11:40کیوں کر شادی کر سکتی ہوں
00:11:41برامکہ نے نفرت سے کہا
00:11:43خدا اس کانے جن کو غارت کرے
00:11:45اس کا تو کام یہی ہے کہ نئی شادی کر کے
00:11:48پہلی بیوی کو ٹھکرا دے
00:11:49اگر میرا بس چلتا تو میں اس سیاہ فارم سے ایسا انتقام لیتی
00:11:52کہ یہ ساری زندگی یاد رکھتا
00:11:54اس نے میری بھی زندگی برباد کر کے رکھ دی
00:11:56تھا اس نے فوراں گرم گرم لوہے پر چوٹ لگاتے ہو کہا
00:11:59اگر تم اس ظالم جن سے اپنی بربادی کا انتقام لینا چاہتی ہو
00:12:03تو میری مدد کر کے اس سے بدلہ لے سکتی ہو
00:12:05تم مجھے یہاں سے آزاد کرا دو
00:12:07رہا کرا دو
00:12:08کانا شہزادہ خود بخود تمہارے انتقام کی ذت میں آ جائے گا
00:12:11برامکہ نے خوش ہو کر کہا
00:12:13یہ بات تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہ آئی تھی
00:12:15تو کیا تم میری مدد کر کے اس سے بدلہ لے سکتی ہو
00:12:18ہاں میں تمہیں یہاں سے فرار کرانے میں
00:12:21تمہاری ہارے ممکن مدد کروں گی
00:12:22مگر سوال یہ ہے کہ تم یہاں سے نکل کر جاؤ گی کہا
00:12:25تمہارا وطن مہینجو دلو
00:12:27یہاں سے ایک مہینے کے سفر پر ہے
00:12:29اور راستے میں بیس روز کا سمندر کا سفر بھی پڑتا ہے
00:12:32تم اکیلی کہاں اور کیسے وہاں تک پہنچ ہوگی
00:12:35برامکہ تم ایک بار مجھے یہاں سے نکلوا دو
00:12:37پھر میرا رب عظیم مجھے مدد کرے گا
00:12:39اور میں پہنچ جاؤ گی
00:12:40میں پوری کوشش کروں گی
00:12:42بلکہ یہ کوشش کروں گی
00:12:43کہ تمہیں کسی کے حوالے کر دو
00:12:45جو تمہیں حفاظت سے تمہارے وطن پہنچا دے
00:12:47اگر تم نے مجھے اس قید سے رہائی دلوا دی
00:12:49تو میں تمہاری احسان سالی زندگی نہ بھول سکوں گی
00:12:52برامکہ
00:12:52اس کی فکر نہ کرو تھائیس
00:12:54کانے سیاہ فارم شہزادے سے میرا انتقام ہی میری
00:12:56سب سے بڑی خوشی ہے
00:12:57برامکہ اب اس ٹوہ میں رہنے لگی
00:13:00کہ تھائیس کو کس طرح وہاں سے فرار کروا کر
00:13:02سیاہ فارم ظالم جن کو اس کی ہماکتوں اور ظلم کا مزہ چکھائے
00:13:05اس نے شہر بھر میں اپنے خاص جاسوس دڑا دیئے
00:13:08کہ اگر کسی جگہ سے کوئی کافلہ ملک سندھ کی طرف جا رہا ہو
00:13:12تو اسے فوراں آ کر اطلاع دے
00:13:13چاند کی تاریخ پہلی قریب آ رہی تھی
00:13:16تھائیس پریشان ہو رہی تھی
00:13:17اس نے ایک روز برامکہ کو چکے سے پوچھا
00:13:19کہ کیا اس نے بندوست کیا ہے کوئی
00:13:21برامکہ نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا
00:13:24ادھر سیاہ فارم شہزادے نے
00:13:26تھائیس سے بیعہ کی تیاریاں زور و شور سے شروع کر دی
00:13:28چاند کی پہلی تاریخ میں
00:13:30صرف دو روز باقی رہ گئے تھے
00:13:31کہ برامکہ نے شام کو آ کر تھائیس سے کہا
00:13:34تھائیس میں نے معلوم کر لیا ہے
00:13:35کہ ایک کافلہ یہاں کی ایک کارماس رائے سے
00:13:38آج صبح صبح تمہارے وطن کی طرف جا رہا ہے
00:13:40تھائیس نے خوشی سے جھم کر کہا
00:13:42کیا تم سچ کہہ رہی ہو برامکہ
00:13:44ہاں تھائیس میرے جاسوس کبھی غلط خبر نہیں دیتے
00:13:47بس تم آج رات جلدی جلدی تیار ہو جاؤ
00:13:49مو اندھیرے میرا ایک خاص جاسوس
00:13:51تمہیں اس کارماس رائے تک پہنچا دے گا
00:13:53کافلے کے امیر سے بات جیتے ہو گئی
00:13:55اور ہم نے اسے تمہارا کرایا بھی ادا کر دیا
00:13:57میری اچھی بہن برامکہ
00:13:59میں تمہارا یہ احسان زندگی بھر نہ بھلوں گی
00:14:01یہ میں اپنا فرض ادا کر رہی ہوں تھائیس
00:14:03ہاں تمہیں مردانہ لباس پہن کر
00:14:05ایک عرب تاجر کی حصیت سے کافلے میں سفر کرنا ہوگا
00:14:08ہم نے تمہارا نام
00:14:10العارف کافلے کے امیر کو بتایا ہے
00:14:11تم عرب تاجر العارف بن کر
00:14:14کافلے والوں کے ساتھ سفر کر رہو گی
00:14:16میں تیار ہوں برامکہ
00:14:17بلکل تیار ہوں
00:14:18میں اپنے بطن جانے کے لیے اور اپنے ماں باو کو ملنے کے لیے
00:14:21جانور بن کر بھی سفر کر سکتی ہوں
00:14:23ٹھیک ہے میں آدھی رات کو
00:14:25تمہارے کپڑے اور دوسرا ضروری سامان لے کر آوں گی
00:14:27تم تیار رہنا
00:14:28میں تیار رہوں گی
00:14:30برامکہ چلی گئی تو تھائیس گہری سوچ میں ٹھوک گئی
00:14:33وہ آج رات وہاں سے فرار ہو رہی تھی
00:14:35اس کا دل خوشی سے نحال ہو رہا تھا
00:14:37اور وہ پریشان بھی بہت تھی
00:14:38خوش اس لیے تھی کہ ایک ظالم کے پنجے سے نجات حاصل کر رہی تھی
00:14:41اور پریشان یہ سوچ کر تھی
00:14:43کہ اگر وہ پکڑی گئی
00:14:44تو ظالم سیاہ فام اسے زندہ نہیں چھوڑے گا
00:14:46اور اس کے ساتھ ساتھ وہ برامکہ بیگی بھی گردن اڑا دے گا
00:14:50کیونکہ اس کے ظلم کے قصے وہ محل میں کنیزوں کی زبانی سن چکی تھی
00:14:53وہ اپنے بستر پر لیٹی یہی سوچ رہی تھی
00:14:56اسے بالکل نیند نہیں آ رہی تھی
00:14:57رات آدھی گزر چکی
00:14:59تو اس کے دروازے پر کسی نے آہستہ سے دستک دی
00:15:01تھائیس سمجھ گئی کہ برامکہ آ گئی ہے
00:15:03اس نے اٹھ کر چکے سے دروازہ کھول دیا
00:15:06برامکہ ہاتھ میں مردانہ عربی لباس لیے اندر آ گئی
00:15:09جلدی سے یہ لباس تبدیل کر لو
00:15:11باہر میرا خاص آدمی گھوڑا لیے تیار کھڑا ہے
00:15:14تھائیس نے کچھ بات کرنی چاہی تو برامکہ نے کہا
00:15:17دیوتاؤں کی قسم اس وقت باتیں نہ کرو
00:15:18جلدی سے لباس بدل لو وقت بہت کم ہے
00:15:21اگر محل میں کوئی جات پڑا تو مسیبت آ جائے گی
00:15:24تھائیس نے کوئی بات نہ کی اور فوراں عربی لباس بدل لیا
00:15:27اب وہ بالکل ایک عرب تاجر معلوم ہو رہی تھی
00:15:30وہ عورت سے مرد بن گئی
00:15:31میرے ساتھ آو
00:15:32تھائیس برامکہ کے پیچھے پیچھے چل پڑی
00:15:34برامکہ اسے لے کر محل کے مختلف دلانہ اور برامدوں سے گزر کر
00:15:38ایک خفیہ چور دروازے کا دروازہ کھول کر
00:15:40وہ تھائیس کو لے کر باہر آ گئی
00:15:42باگ کے گوشے میں خجور کے درختوں کے جھنڈ تلے کھبشی
00:15:46غلام دو گوڑوں کی باگت ہمیں ان کی راہ دیکھ رہا تھا
00:15:49اس کے قریب جا کر برامکہ نے تھائیس کو ایک گٹڑی دی اور کہا
00:15:52اس گٹڑی میں کچھ کھانے پینے کی چیزیں ہیں
00:15:54ایک جوڑا مردانہ کپڑوں کا ہے
00:15:55اور کچھ سونے کے اچرفیاں جو راستے میں تمہارے کام آئیں گی
00:15:58تھائیس نے برامکہ کا ہاتھ تھام کر کہا
00:16:01برامکہ تم ایک بہادرورت ہو
00:16:03تم نے میرے ساتھ جو ہمدردی کی
00:16:05میں شاید زندگی بر تمہیں اس کا بدلہ نہ دے سکوں
00:16:07مجھے تمہارے بدلے کی ضرورت نہیں تھائیس
00:16:09میری یہی خواہش ہے
00:16:11کہ ہم نے ظالم سیاہ فارم کانے کو شکست دے دی
00:16:13اور تم ایک روز اپنے ماں باپ کے گھر پہنچا ہوگی
00:16:16یہ ظالم مرد جو ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح خریدتے ہیں
00:16:19اور بھیڑ بکریوں کی طرح فروخت کر ڈالتے ہیں
00:16:22ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہیے
00:16:23اچھا اب جاؤ
00:16:24دیوتا تمہاری حفاظت کریں
00:16:26تھائیس گوڑے پر سوار ہو گئی
00:16:28برامکہ نے حبشی غلام سے کہا
00:16:29تھائیس کو امیر کاروان کے حوالے کر کے واپس آنا
00:16:32اور خبردار
00:16:33کسی کو یہ راز معلوم نہ ہو کہ تھائیس ایک عورت ہے
00:16:36جو حکم برامکہ شہزادی
00:16:38وہ دونوں گوڑوں پر سوار ہوئے
00:16:40اور رات کے اندھیرے میں باغ سے نکل کر
00:16:42اس کاروان سرائے کی طرف روانہ ہو گئے
00:16:44جہاں ایک کافلہ ملک سندھ کی طرف
00:16:46کوچھ کرنے کی تیانیاں کر رہا تھا
00:16:47وہ بہت جلدی کاروان سرائے پہنچ گئے
00:16:50حبشی غلام سیدھا امیر کاروان کے پاس پہنچا
00:16:52اور اس سے کہنے لگا
00:16:53اے امیر ہمارا مسافر حاضر ہے
00:16:55امیر نے کہا ہے
00:16:56ٹھیک ہے اسے کافلے میں شامل کر دو
00:16:58امیر کاروان نے سر سے پاؤں تک تھائیس کو دیکھا
00:17:01اسے ایک پل کے لیے بھی شک نہ ہوا
00:17:03کہ وہ مرد نہیں بلکہ عورت ہے
00:17:04تھائیس نے بھی مردوں کی طرح
00:17:06جھک کر امیر کو سلام کیا اور کہا
00:17:08مجھے امید ہے آپ کے ساتھ
00:17:09ہمارا سفر بہت خوشی سے گزرے گا
00:17:11ہمارا سفر ہمیشہ خوشی سے گزرتا
00:17:13تمہارا نام کیا ہے
00:17:14العارف مصر کا مشہور تاجر
00:17:17بہت خوب مگر تمہارا مال کہاں ہے
00:17:19تھائیس گھبرا گئی مگر حبشی غلام نے فوراں کہا
00:17:22میں نے آپ سے کہا نہیں تھا
00:17:23کہ ان کا مال پچھلے کافلے میں آئے گا
00:17:25ملک سندھ میں ان کے بڑے بھائی کی طبیعت خراب ہے
00:17:28اس لئے انہیں وقت سے پہلے سفر کرنا پڑا
00:17:30ارے ہاں ہاں یاد آیا ٹھیک ہے ٹھیک ہے
00:17:32تھائیس کی جان میں جان آئی
00:17:34برنہ اسے بالکل علم نہیں تھا
00:17:36کہ وہ امیر کاروان کے سوال کا کیا جواب دے گا
00:17:38حبشی غلام تھائیس کو کاروان سرائے میں
00:17:41دوسرے مسافروں کے درمیان چھوڑ کر جانے لگا
00:17:43تو بولا
00:17:43اب میں جاتا ہوں
00:17:44امید ہے آپ کا سفر بخیریت خوشی گزرے گا
00:17:47تمہارا شکریہ وفادار انسان
00:17:49برامکہ کو میرا سلام کہنا
00:17:50بہت بہتر دیوتا آپ کی حفاظت کریں
00:17:53حبشی غلام سلام کر کے چلا گیا
00:17:55کاروان سرائے میں تھائیس دوسرے مسافروں میں کلی رہ گئی
00:17:58لیکن اس نے سوچا
00:17:59اگر وہ چپ چاپ چھرمیلی بن کر ایک طرف بیٹھ گئی
00:18:02تو لوگوں کو شک ہوگا
00:18:03بہتر ہے کہ وہ ایک عام مرد تاجر کی طرح
00:18:06دوسروں کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرے
00:18:08چنانچہ اس نے دوسرے مسافروں کے ساتھ
00:18:10ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں
00:18:12کافلہ کافی بڑا تھا
00:18:14سیکڑوں اونٹ تھے جن پر سامان لادا جا چکا تھا
00:18:17گوڑے بھی تھے جو پہرے داروں کے لیے تھے
00:18:19مسافروں میں سے زیادہ تعداد ان کی تھی
00:18:20جو سندھ کے ملک جا رہے تھے
00:18:23تھائیس نے بہت جلد ان کو اپنا دوست بنا لیا
00:18:25ایک مسافر نے تھائیس کے کندے پر زور سے ہاتھ مار کر کہا
00:18:28یار تم تو جوان لگتے ہو
00:18:30تھائیس کا سارا بدن ایک ہاتھ مارنے سے ہل گیا
00:18:32مگر وہ جھوٹ موٹ کا مرد بنی ہستی رہی اور بولی
00:18:36میں جوان ہی تو ہوں
00:18:37مگر یار تمہاری ابھی موچ داڑی نہیں نکلی
00:18:39میں اسے مونڈ ڈالتا ہوں
00:18:41سارے مسافر کل کلا کر ہر تڑے
00:18:43ارے یہ مرد کم اور لڑکی زیادہ ہے
00:18:45تھائیس کام گئی کہیں لوگوں کو معلوم نہ ہو گیا ہو
00:18:48کہ وہ عورت ہے
00:18:49مگر نہیں وہ تو مزاک کر رہے تھے
00:18:51اصل میں اس میں سے اصل بات کی کسی کو خبر نہ تھی
00:18:54رات کے پچھلے پہر کافلہ تیار ہو چکا
00:18:57اور سرائے کے باہر
00:18:58اونٹ گھوڑے اور گھدے کتار باندے کھڑے تھے
00:19:00امیر کاروان نے ایک بار آ کر سب کا معینہ کیا
00:19:03سارے مسافر اونٹوں اور گھدوں پر غیرہ پر تیار ہو چکے تھے
00:19:07اور تو ان بچوں کو اونٹوں کے کجادوں پر بٹھا دیا گیا
00:19:09تھائیس کو ایک گھدے پر جگہ ملی
00:19:11امیر کاروان نے نوبت بجا کر کافلے کو کوج کرنے کا حکم دیا
00:19:15نوبت کے بجتے ہی کافلہ چل پڑا
00:19:18ایک ایسے سفر پر جو طویل بھی تھا اور پرخطر بھی
00:19:21جس کے راستے میں سہرا بھی تھے اور سمندر بھی
00:19:23جنگل بھی تھے اور چٹیل میدان بھی
00:19:25تھائیس کے لیے یہ زندگی کا پہلا سفر تھا
00:19:28کہ وہ عورت کے بجائے مرد بن کر سفر کر رہی تھی
00:19:30کافلے وہ وہ تھائیس نہیں
00:19:32بلکہ العارف نام کا ایک تاجر تھا
00:19:34جو مصر کے شہر سے ملک سندھ کو جا رہا تھا
00:19:38کافلہ سو وہ موں دیرے کو چلتا ہوا سارا دن سفر کرتا رہا
00:19:41اور رات کو اس نے اپنی پہلی منزل پر پڑاؤ کیا
00:19:44یہ منزل مصر سے دور ایک نخلستان تھا
00:19:47جہاں سایہ دار درختوں کے جھنڈ تھے
00:19:49اور ایک میٹھے پانی کا چشمہ بہرا تھا
00:19:51کافلہ یہاں رک گیا
00:19:52اونٹ بیٹھ گئے اور ان پر سے سامان اتار دیا گیا
00:19:54لوگوں نے موہاں دویا تازہ دم ہو کر
00:19:56رات کا کھانا کھایا اور چھوٹے چھوٹے قیمے لگا کر
00:19:59شولوں کی روشنی میں کہوا پینے اور آپس میں باتیں کرنے لگے
00:20:02تھائیس جن لوگوں کے ساتھ سفر کر رہی تھی
00:20:04ان میں ایک شامی نوجوان نے زبردستی اس سے دوستی کر لی
00:20:07اس کو ہرگز یہ معلوم نہیں تھا
00:20:09کہ العارف عرب تاجر ایک عورت ہے
00:20:11وہ اسے ایک مصری تاجر ہی سمجھتا تھا
00:20:14شامی نے تھائیس کے ساتھ مل کر
00:20:15ایک بکرے کو زبا کر کے بھونا اور اسے مل کر کھایا
00:20:18پھر وہ تلخ کہوہ بنا کر پیتے اور باتیں کرتے
00:20:21شامی نے کہا بھائی عارف
00:20:22ملک سندھ میں پہنچ کر تم کس شہر میں قیام کروگے
00:20:25تھائیس اسے اپنا ٹھکانہ نہیں بتانا چاہتی تھی
00:20:28اس نے جھوٹ موٹ کہہ دیا
00:20:30کہ وہ ہاری پانام کے شہر میں قائم کرے گی
00:20:33جہاں اس کا ایک جچا
00:20:34ریشمی کپڑے اور گرم مسالوں کا کاروبار کرتا ہے
00:20:36وہاں اپنا مال فروخت کرنے کے بعد
00:20:39وہ ملک چین کی طرف نکل جائے گی
00:20:41شامی تاجر نے بڑی اشتیاق سے کہا
00:20:42ملک چین ایک بڑا حسین ملک ہے
00:20:45وہاں کے لوگ بہت اچھے ہیں
00:20:46سنا ہے وہاں ریشمی کپڑے اور کستوری کا بڑا کاروبار ہے
00:20:49کیا چین میں تمہارا کسی تاجر سے ملنا جلنا ہے
00:20:52تھائیس کو خواب میں بھی علم نہ تھا
00:20:54کہ ملک چین کہاں ہے
00:20:55اور کیسا ملک ہے
00:20:56وہ زندگی میں کبھی وہاں نہیں گئی تھی
00:20:58پھر بھی اس نے اپنی بات رکھنے کے لیے کہا
00:21:00ہاں میں کئی بار چین گیا ہوں
00:21:02وہاں پیکن شہر میں
00:21:03یوسف نام کا ایک تاجر میرا دوست ہے
00:21:05اگر تم چین جانے کا ارادہ چلتے ہو
00:21:08تو تم میرے ساتھ وہاں جا سکتے ہو
00:21:10اگر تم مجھے اپنے ساتھ چین لے چلو
00:21:12تو میں تمہارا بہت شکر گزار ہوں گا
00:21:14مجھے ملک چین دیکھنے اور وہاں جا کر
00:21:16کاروبار کرنے کا بہت شوک ہے
00:21:17ملک سندھ پنچ کر مجھ سے ضرور ملنا
00:21:20وہاں سے کٹھے چین جائیں گے
00:21:21اور کاروبار بھی کریں گے
00:21:23اور اس خوبصورت ملک کی سہر بھی کریں گے
00:21:26ضرور ضرور میں تمہارے ساتھ چلوں گا
00:21:28اچھا یہ بتاؤ کہ ہم
00:21:29ہاریپا شہر سے کون کون سا مال لے کر چین جائیں گے
00:21:33مال ایسا ہونا چاہیے
00:21:35کہ جس کی وہاں کھپت ہو
00:21:36تھا اس کو کچھ ملوم نہیں تھا
00:21:38کہ چین میں کون سے مال کی کھپت ہو سکتی ہے
00:21:40لیکن یہاں بات کو جاری رکھنا ضروری تھا
00:21:42اس نے یوں ہی کہہ دیا
00:21:43ہم ہاریپا شہر سے تانبے کے برتنوں کا سمان اور کپڑا لے جا سکتے ہیں
00:21:47یہ اس نے یوں ہی کہہ دیا
00:21:49کہ اس نے دیکھا کہ اس کے شہر میں
00:21:50تانبے کا سمان اور کپڑا ہم فروتا ہوئے
00:21:53شامی تاجر نے کہا
00:21:54کہ وہ یہی مال لے کر چین جائیں گے
00:21:56اور اسے بے حد نیند آ رہی تھی
00:21:57مگر وہ شامی تاجر بڑا باتونی تھا
00:21:59اور باتیں ہی کرتا جلا جا رہا تھا
00:22:02آخر تھائیس نے کہا
00:22:03شامی بھائی مجھے تو نیند آ رہی ہے
00:22:04شامی نے بھی انگڑائی لے کر کہا
00:22:06ہاں بھائی عارف مجھے بھی نیند آ رہی ہے
00:22:08میرا خیال ہے آپ سو جانا چاہیے
00:22:10اور وہ خیمے کے باہری چادر اڑ کر
00:22:12ریت پر سو گیا
00:22:13تھا اس خیمے کے اندر چلی گئی
00:22:15اور ایک کالین پر چادر اڑ کر لیٹ گئی
00:22:18اسے نیند بھی آ رہی تھی
00:22:19مگر وہ دل میں ڈر رہی تھی
00:22:21کہ کہیں سیاہ فام شہزادے کے جاسوس
00:22:22تیز رفتار اونٹوں پر سوار
00:22:24اس کا پیچھا کرتے وہاں نہ پہنچ جائیں
00:22:26اگر وہ وہاں پہنچ گئے
00:22:28تو اسے دنیا کی کوئی طاقت
00:22:30ان ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے گی
00:22:31وہ ضرور اسے گرفتار کر کے لے جائیں گے
00:22:34کیونکہ ان کے مالک نے
00:22:35ایک لاکھ بیس ہزار ریال دے کر
00:22:37اسے خریدا ہے لیکن اخر اسے نیند آ گئی
00:22:39ادھر جب دن چڑھا اور محل میں پتا چلا
00:22:42کہ تھائیس غائب ہے
00:22:42تو چاروں طرف کو حرام مچ گیا
00:22:45سیاہ فام شہزادے کو اس کی خبر ملی
00:22:47تو وہ آگ بگولہ ہو گیا
00:22:48اس نے سارے محل کو سر پر اٹھا لیا
00:22:50برامکہ کو بلا کر اس نے چیخ کر کہا
00:22:53بتاؤ تھائیس کہاں ہیں
00:22:54میں نے اسے تمہاری حفاظت میں دیا تھا
00:22:56برامکہ نے ہاتھ باندھ کر کہا
00:22:58میرے آقا
00:22:58رات میں اسے پلنگ پر سلا کر
00:23:00اپنے کمرے میں گئی تھی
00:23:01مجھے اگر معلوم ہوتا
00:23:02کہ وہ رات و رات کہیں بھاگ جائے گی
00:23:04تو میں اسے کبھی اکیلہ نہ چھوڑتی
00:23:05تم جھوٹ بکتی ہو
00:23:07تم نے خود اسے بھگایا ہے
00:23:09ایسا نہیں ہے میرے آقا
00:23:10میں تھائیس کو بھگا کر
00:23:11اپنی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی
00:23:13تھائیس خود ہی بھاگ گئی
00:23:15ہمیں اس کی تلاش میں فوراں آدمی دوڑانے چاہیے
00:23:18وہ ابھی مصر کی سرد کے اندر ہی ہوگی
00:23:20سیاہ فام شہزادے نے
00:23:22اپنے چھے برک رفتار گوڑوں پر
00:23:24حفشی غلاموں کو سروار کروا کر
00:23:25حکم دیا کہ جاؤ
00:23:26تھائیس کو تلاش کرو
00:23:28اور جہاں کئی بھی ہو
00:23:29اسے گرفتار کر کے پیش کرو
00:23:30چھے کے چھے غلام حفشی
00:23:32اپنے آقا کا حکم سن کر
00:23:34اسی وقت روانا ہو گئے
00:23:35سوال یہ تھا کہ کدھر اسے تلاش کریں
00:23:37انہوں نے سرد کے ساتھ ساتھ
00:23:39اپنے تمام جاسوسوں کو اطلاع دے دی
00:23:41وہ خود بھی سارا دن شہر میں
00:23:43تھائیس کو تلاش کرتے رہے
00:23:44انہوں نے کونہ کونہ چھان مارا
00:23:46تقریبا ہر گلی ہر محلے
00:23:48ہر کاروانس رائے میں اسے ڈھونڈا
00:23:50مگر وہ نے کہیں نہ ملی
00:23:51شام کو وہ ناکام نامراد واپس لوٹے
00:23:54تو سیاہ فام شہزادہ ان پر برس پڑا
00:23:56تم سارے کے سارے نمک حرام ہو
00:23:58تم سے ایک کنیز نہیں تلاش کی گئی
00:24:00حبشی غلام نے کہا
00:24:01آقا ہم نے شہر کا کوئی ایسا کونہ نہیں چھوڑا
00:24:04جہاں سے تلاش نہ کیا ہو
00:24:05وہ یقینا شہر میں نہیں
00:24:07وہ ضرور کسی کافلے کے ساتھ
00:24:09مصر سے نکل چکی ہے
00:24:10کیا کل یہاں کوئی کافلہ
00:24:12یہاں سے باہر گیا تھا
00:24:13مالوم ہوا ہے کہ آقا پرسوں رات
00:24:15ایک کافلہ یہاں سے ملک سندھ کی طرف روانہ ہوا
00:24:17سیاہ فام نے گرج کر کہا
00:24:19وہ ضرور اسی کافلے کے ساتھ گئی ہے
00:24:28افتار کر کے میرے سامنے پیش کرو
00:24:29اگر تم خالی ہاتھ آئے تو میں تمہاری گردنیں اتار دوں گا
00:24:33حبشی غلاموں نے سر جھکا کر ارز کی
00:24:35ہم ابھی سفر پر روانہ ہوتے ہیں
00:24:37ہمارے آقا اور تھائیس کو
00:24:38کافلے میں سے تلاش کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں
00:24:41جاؤ دفع ہو جاؤ
00:24:42حبشی غلام گوڑوں پر سوار ہو کر
00:24:44اس راستے پر روانہ ہو گئے
00:24:46جدر کافلہ گیا تھا
00:24:47سیاہ فام شہزادہ جوش کے عالم میں یہ بھول گیا
00:24:50کہ وہ جن غلاموں کو بھیج رہا ہے
00:24:52وہ خود بھی فرار ہو سکتے ہیں
00:24:53حبشی غلام دن بھر سفر کرتے رہے
00:24:55شام کو ایک نخلستان میں رک گئے
00:24:58یہاں انہوں نے ایک دیاتی بددوسے کافلے کے بارے میں پوچھا
00:25:01تو اس نے بتایا
00:25:01کہ وہاں ایک کافلہ ایک روز پہلے ٹھہرا تھا
00:25:04ایک غلام بولا
00:25:04اگر ہم اسی طرح چلتے رہے تو کافلہ ہم سے ہمیشہ
00:25:08ایک منزل آگے رہے گا اور ہمیں سے کبھی نہ پا سکیں گے
00:25:11دوسرا بولا
00:25:20کہ سیاہ فارم ظالم آقا کے پنجرے سے نکل گئی
00:25:23اس نے عورت ہو کر ایسی دلیری سے کام کیا
00:25:26اور ہم مرد ہو کر ایسا نہیں کر سکتے
00:25:27یہ سوچنے کی بات ہے بھائیو
00:25:29ہمارا مالک ہم غلاموں پر بڑا ظلم کرتا ہے
00:25:32وہ ہم سے سارا سارا دن
00:25:34کھیتوں میں جانوروں کی طرح کام لیتا ہے
00:25:35ہم پر کوڑے برساتا ہے اور ہمیں کھانے کو بہت تھوڑا دیتا ہے
00:25:39کیا ہم عورتوں سے بھی گئی گزرے ہیں
00:25:40کہ اس کا ظلم سہ رہے ہیں
00:25:42اور زبان سے کچھ نہیں کہہ سکتے
00:25:44بھائیو
00:25:45اس وقت اگر ہم چاہیں تو
00:25:46اپنے ظالم آقا کی غلامی کی زنجیروں کو
00:25:48ہمیشہ کے لیے توڑ سکتے ہیں
00:25:50وہ کیسے
00:25:50وہ ایسے کہ ہم ابھی سے اپنے آپ کو آزاد سمجھنے لگیں
00:25:54اور تھائیس کا پیچھا چھوڑ دیں
00:25:55وہ ہماری کنیز بہن تھی
00:25:57ہم اسے کبھی گرفتار کر کے
00:25:59دوبارہ غلام لونی نہیں بنائیں گے
00:26:01بڑا اچھا خیال ہے
00:26:02ہم آزاد ہیں ابھی سے آزاد ہیں
00:26:04ہبشی غلام اٹھ کر ریت پر خوشی سے رکس کرنے
00:26:07اور آزادی کا ایک پرانا گیت گانے لگے
00:26:09انہوں نے سیاہ فام شہزادے کا فرمان پھاڑ کر پھینک دیا
00:26:12وہ سوچنے لگے کہ انہیں کس طرف کا رکھ کرنا چاہیے
00:26:15سب سے بڑے غلام نے کہا
00:26:16کہ انہیں یہاں سے نکل کر
00:26:17ملک یمن کا رکھ کرنا چاہیے
00:26:19جو ایک آزاد ملک ہے
00:26:20اور جہاں پر غلاموں کی تجارت
00:26:22قانونی طور پر جرم قرار دی گئی ہے
00:26:24اور یوں وہ ہبشی غلام جو کنیز تھا
00:26:27اس کو گرفتار کرنے گھر سے نکلے تھے
00:26:28خود آزاد ہو کر فرار ہو گئے
00:26:31ایک بھیانک سفر کے بعد
00:26:32امبر ملک سندھ میں پہنچ گیا
00:26:34آخر اسے وہ کافلہ مل گیا
00:26:36جو سندھ کے رگستانوں سے ہوتا ہوا
00:26:37مہنجو دڑو جا رہا تھا
00:26:39چھے روز اور چھے راتوں کے سفر کے بعد
00:26:41وہ مہنجو دڑو کے عظیم شان شہر میں پہنچ گیا
00:26:44وہ مہنجو دڑو شہر کی صفائی
00:26:46گلیوں بازاروں اور مکانوں کی
00:26:49طرز تعمیر اور لوگوں کی خوشحالی
00:26:50کو دیکھ کر حیران رہ گیا
00:26:51دو ہزار برس کے دوران میں
00:26:53زندگی میں وہ پہلی بار ایک ایسا شہر دیکھ رہا تھا
00:26:56جس کے لوگ خوشحال تھے
00:26:59جہاں مکانوں کی تعمیر کے لیے پکی انٹیں
00:27:01استعمال ہوئی تھی
00:27:01جس کی گلیوں میں انٹوں کے فرش لگے تھے
00:27:04اور جہاں گندے پانی کے نکاس کا
00:27:06نہائیت آلہ بنوست تھا
00:27:07مصر کے فرانوں کے زمانے میں بھی
00:27:10وہاں کے شہروں میں ہر طرف گندگی پھیلی رہتی
00:27:12اور جگہ جگہ گندے پانی کے جہوڑ بنے ہوتے
00:27:15لوگ مختلف بیماریوں میں
00:27:17مبتلا ہو کر مر جاتے
00:27:18لیکن مہنجو دلو شہر میں اسے کہیں بھی
00:27:20گندے پانی کا ایک جہوڑ بھی نظر نہ آیا
00:27:22دکانیں سجی ہوئی تھی
00:27:24عورتیں بچے اور جوان چیزیں خرید رہے تھے
00:27:27ان کے کپڑے ساف سترے تھے
00:27:28ان کے چہروں پر رونک تھی
00:27:29کھیتوں میں کپاس کی فصل حیرت انگیز
00:27:32ہاتھ تک لہر آ رہی تھی
00:27:33ایسی کپاس اس نے مصر میں بھی نہ دیکھی تھی
00:27:36امبر ایک کاروان سرائے میں آ گیا
00:27:38یہ کاروان سرائے بڑی ساف ستری تھی
00:27:39اس کے مالک نے امبر کو خندہ پیشانی سے
00:27:42خیر مقدم کیا اور اس کا کمرہ دکھایا
00:27:44امبر نے کھانے کے وقت مالک سے پوچھا
00:27:46کیا آپ لوگ دیوتا آمون کی بوجہ کرتے ہیں
00:27:48ہاں مگر کیا تمہیں معلوم نہیں
00:27:51تم کہاں سے آ رہے ہو
00:27:52میں اس شہر میں اجنبی ہوں
00:27:53میں مصر سے آ رہا ہوں
00:27:55دیوتا تمہیں خوش رکھیں
00:27:56مہینجو دلوں میں تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی
00:27:59یہاں حکومت کس بادشاہ کی ہے
00:28:00اے نوجوان تاجر
00:28:02یہاں شہزادہ ارجنگ کی حکومت ہے
00:28:05اور وہ ہمارے مرے ہوئے بادشاہ کا ایک لوتا بیٹا ہے
00:28:07ارجنگ بڑا نیک اور پرہیزگار بادشاہ ہے
00:28:11اسے اپنی ریایہ سے بڑی محبت ہے
00:28:13کیا اس کی والدہ ملکہ زندہ ہے
00:28:15نہیں ملکہ بھی مر چکی
00:28:17شہزادہ کی پرورش اس کی خالہ نگی تھی
00:28:19اب وہیں اس کے ساتھ حکومت کے کاموں میں مدد دیتی ہے
00:28:22مندر کے پجاری کا کیا رتوہ ہے
00:28:24وہ شہزادہ کا روحانی باپ ہے
00:28:26اسی کے مشورے سے شہزادہ حکومت کا کام چلاتا ہے
00:28:29امبر سمجھ گیا کہ یہاں عملی طور پر پجاری کی حکومت ہے
00:28:33اور چونکہ پجاری بڑے نیک اور پارساں ہیں
00:28:35اس لیے مہینجو دلو ایک خوشحال اور پاکیزہ شہر ہے
00:28:39اور یہاں کے لوگ ایک دوسرے کی خدمت کرنا فرض سمجھتے ہیں
00:28:42ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ بازار میں سے ایک جلوس گزرا
00:28:45امبر اسے دیکھنے لگا
00:28:47یہ جلوس ایک جنازہ تھا
00:28:49معلوم ہوا کہ شہر کا ایک امیر اور بڑا تاجر مر گیا ہے
00:28:52لوگ اسے جلانے کے لیے رجا رہے ہیں
00:28:54تاجر کے جنازے کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی تھی
00:28:56جسے تاجر کے رشتدار زبردستی کھینچے ہوئے لے جا رہے تھے
00:29:00امبر بڑا حیران ہوا یہ کیا ماجرہ ہے
00:29:02اس نے مالک سے پوچھا
00:29:03یہ لوگ اس لڑکی کو کیوں گزیٹے لے جا رہے ہیں
00:29:06کاروان سرائے کے مالک نے گہرہ سانس پر کر کہا
00:29:08اے نوجوان یہاں ایک قبیلہ آریاؤں کا بات ہے
00:29:11اس قبیلے کے لوگ اپنی عورتوں کو خواند کے ساتھ ہی آگ میں جلا دیتے ہیں
00:29:16یہ بڑا تاجر مرا ہے
00:29:17اس نے ملک انتاکیہ کی ایک نوجوان لڑکی سے شادی کی تھی
00:29:21شادی کے چھتے روز یہ مر گیا
00:29:23اب اس کی رشتے دار لڑکی کو زبردستی خواند کی لاش کے ساتھ زندہ جلانے کے لیے لے جا رہے ہیں
00:29:28لیکن وہ تو جلنا نہیں چاہتی
00:29:30پھر اس کے ساتھ زبردستی کیوں کر رہے ہیں
00:29:32یہ ان کے مذہب میں لکھا ہے
00:29:34کہ بیوی چاہے پسند کرے یا نہ کرے
00:29:36اسے ہر حالت میں اپنے مرے ہوئے خواند کے ساتھ جل کر مرنا ہوگا
00:29:40ارے کیا اس ظلم کو یہاں کا شہزادہ ارجنگ ختم نہیں کر سکتا
00:29:43شہزادہ ارجنگ کسی قبیلے کے مذہب میں دخل نہیں دیتا
00:29:47یہاں پر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے انداز میں رسومات ادا کرنے کی پوری اجازت ہے
00:29:52امبر کو اس نوجوان لڑکی پر بڑا ترس آیا
00:29:54بڑے تاجر مردہ کے ظالم رشتداروں نے لڑکی کو رسیوں میں اپجکٹ رکھا تھا
00:29:59اور وہ سے زبردستی کھینچے جا رہے تھے
00:30:01لڑکی رو رہی تھی شور مچا رہی تھی
00:30:03لوگوں سے مدد کی دعائی دے رہی تھی
00:30:05مگر کوئی اس کی آواز پر کان نہیں دھر رہا تھا
00:30:07ہر شخص اسے خاموشی سے دیکھ رہا تھا
00:30:10اس لیے کہ وہاں کسی کے مذہب میں کوئی دخل نہیں دیتا تھا
00:30:13اچانک امبر نے فیصلہ کر لیا
00:30:15کہ وہ ہر قیمت پر اس نوجوان لڑکی کو ان ظالموں کے پنجے سے بچائے گا
00:30:19جو اسے ایک مردہ احمق بڑے تاجر کی لاش کے ساتھ آگ میں جلانے کے لیے لے جا رہے تھے
00:30:24اس کا ذکر اس نے کاروان سرائے کے مالک سے نہ کیا
00:30:27اس کے دل میں یہ خیال بھی تھا کہ یہاں کے لوگ یہ پسند نہیں کرتے
00:30:30کہ کسی کے مذہبی معاملات میں دخل دیا جائے
00:30:33پھر بھی اسے یقین تھا کہ شہر کے ہر شخص کو یہی خواہش ہے
00:30:36کہ اس بے گناہ لڑکی کو زندہ آگ میں جلانے سے بچایا جائے
00:30:39اس اعتبار سے امبر کو بہت جلد عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو گئی
00:30:43اس نے کاروان سرائے کے مالک سے کہا میں ابھی آیا
00:30:45ارے میاں تم کہاں جا رہے ہو
00:30:46امبر نے کہا میں اس ملک میں عورت کو خامن کے ساتھ
00:30:49زندہ جلائے جانے کا تماشا دیکھنے جا رہا ہوں
00:30:51اچھا اچھا ضرور جاؤ
00:30:53یہ تماشا اب تم نے اپنی زندگی میں کہیں اور نہیں دیکھا ہوگا
00:30:56لیکن ایک یاد رکھنا کسی معاملے میں دخل دینے کی کوشش نہ کرنا
00:31:00تم فکر نہ کرو میں کسی معاملے میں دخل نہیں دوں گا
00:31:03امبر کاروان سرائے کے سے اٹھ کر بڑے تاجر کے جنازے کی طرف چل پڑا
00:31:06جنازہ شہر کے بازاروں اور پر پیچ گلیوں سے اوزرتا ہوا
00:31:10شہر سے باہر ایک میدان میں پہنچ کر رک گیا
00:31:13جہاں لکڑیوں کی ایک چتہ پہلے سے تیار کر دی گئی تھی
00:31:16اور پجاری بیٹھے منتر پڑ رہے تھے اور ڈھول بجا رہے تھے
00:31:20جنازے کو دیکھ کر وہ زور زور سے ڈھول بجانے لگے
00:31:22لڑکی کے رونے کی آواز ڈھول کی آواز میں دب کر رہ گئی
00:31:26جنازہ اور چتہ کے پاس رکھ دیا گیا
00:31:28پجاری منتر پڑھنے لگے
00:31:29اور لڑکی کو چتہ کے پاس ہی لکڑی کے کھمبے سے باندیا گیا
00:31:33جنازے میں جتنے لوگ شامل تھے
00:31:35وہ ایک ایک کر کے لڑکی کے پاس جا کر
00:31:37اس کے سر کا ایک بال نوچتے اور آگے چلتے تھے
00:31:39یہ بھی ایک رسم تھی جو ادا کی جا رہی تھی
00:31:41امبر بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا
00:31:43جب وہ لڑکی کے پاس پہنچا
00:31:45تو اس کے سر کا بال نوچنے کے لیے
00:31:47اس کے ای طرف جھکا اور کان میں کہا
00:31:48فکر نہ کرو
00:31:49میں تمہیں یہاں سے نکال کر لے جاؤں گا
00:31:52لڑکی روتے روتے ایک دم رک گئی
00:31:53اور اس نے بڑے غور سے امبر کی طرف دیکھا
00:31:55امبر کی آنکھوں میں ایک ایسی دیوتاؤں جیسی چمک پیدا ہو گئی
00:31:59کہ لڑکی کو فوراں یقین آ گیا
00:32:01کہ یہ نوجوان اسے بچا لے گا
00:32:02مگر کیسے یہ سوچ کر لڑکی پھر رونے لگی
00:32:05اس نے سوچا کہ شاید نوجوان نے اسے خوش کرنے کے لیے ایسا کہا ہے
00:32:08لمبر نے لڑکی کا اکبال نوچہ اور آگے نکل گیا
00:32:11اب وہ یہ سوچنے لگا کہ لڑکی کو کیسے بچایا جائے
00:32:14اچانک اس کے ذہن میں بلتیس کی بہن کا خیال آیا
00:32:18اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مصیبت کے وقت اس کی مدد کرے گی
00:32:21اس خیال کے ساتھ ہی امبر ان لوگوں سے الگ ہٹ گیا
00:32:24اور ذرا دور جا کر ایک ویران سے پہاڑی ٹیلے کی آٹ میں آ گیا
00:32:28یہاں آ کر اس نے دل ہی دل میں ایک دعا پڑی
00:32:30اور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھلا کر بولا
00:32:32اے بلتیس کی بہن مجھے تیری مدد کی ضرورت ہے
00:32:36اگر تم میری آواز سن رہی ہے تو میری مدد کر
00:32:38اور آ اپنا وعدہ پورا کر
00:32:40تم نے مجھے کہا تھا کہ اگر مصیبت کے وقت میں تجھے بکاروں
00:32:43تو تم میری مدد ضرور کرے گی
00:32:44پہلی آواز پر کوئی اثر نہ ہوا
00:32:47چوتھی بار بکار نے پہاڑ کو لرزا دیا
00:32:50اور بلتیس کی بہن ایک دیوی کی شکل میں اس کے سامنے کا کھڑی ہوئی
00:32:53وہ مسکرہ رہی تھی
00:32:54میں جانتی ہوں تم نے مجھے کس لیے بلائے ہیں
00:32:57اور اگر ایک بے گناہ لڑکی کی زندگی کا معاملہ نہ ہوتا
00:33:00تو شاید میں کبھی نہ آتی
00:33:01اگر تجھے سب کچھ معلوم ہے
00:33:03تو پھر اس معظوم لڑکی کو ان ظالموں سے بچا
00:33:06یہ لوگ اس بے گناہ کو آگ میں زندہ چلا رہے ہیں
00:33:08میں ضرور اس کی مدد کروں گی
00:33:11مگر مدد کیسے کرو گی
00:33:12ان لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہونا چاہیے
00:33:14کہ ان کے مذہب میں دخل دیا گیا ہے
00:33:15تیوی ہنس پڑی
00:33:16تم بڑے بھولے ہو
00:33:18تم سمجھتے ہو کہ مجھے کچھ معلوم نہیں
00:33:20مجھے سب کچھ معلوم ہے جسے تم نہیں جانتے
00:33:22تم وہاں چتا کے قریب چل کر کھڑے ہو جاؤ
00:33:24اور تماشا دیکھو کیا ہوتا ہے
00:33:26اتنا کہہ کر بلتیس کی بہن غائب ہو گئی
00:33:29امبر وہاں سے چل کر ایک بار چتا کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا
00:33:32لاش اور لڑکی کو جلانے کی دیانیاں مکمل ہو گئیں
00:33:35لڑکی کی چتا کو بڑی بڑی لکڑیوں کے ساتھ
00:33:37زنجیر سے کس کر بان دیا گیا
00:33:39تاکہ وہ بھاگ کر نہ جا سکے
00:33:40اور پوری طرح جل کر بسم ہو جائے
00:33:42پروہیت منتر پڑ رہے تھے
00:33:44پجاری کے زغلام زور زور سے ڈھول تاشے پیٹ رہے تھے
00:33:47لڑکی زور زور سے چیخیں مار رہی تھی
00:33:49بین کر رہی تھی
00:33:51مگر اس کی چیخوں کی آواز کوئی نہیں سن رہا تھا
00:33:53اب چتا میں گھی ڈالا جا رہا تھا
00:33:55لاش کو چتا پر رکھ دیا گیا
00:33:57جب گھی میں ساری لکڑیاں تر ہو گئیں
00:34:00تو ایک پجاری دو پتھر لے کر
00:34:01چتا کو آگ لگانے کے لئے آگے بڑا
00:34:03اس نے دونوں پتھروں کو رگڑا
00:34:05چنگاری نکلی مگر لکڑیوں کو آگ نہ لگی
00:34:07اس نے کئی بار ایسا کیا
00:34:09مگر ہر بار لکڑیاں آگ بکڑنے سے انکار کر دیتی
00:34:12پجاری بکھلا گیا
00:34:13کہ آخر ماجرہ کیا ہے
00:34:14اس نے دوسرے پجاری کو بلایا
00:34:16اب سارے لکڑیوں کو آگ لگانے کی کوشش کر رہے تھے
00:34:19مگر لکڑیاں گیلے لوہے کی لٹ بن گئی
00:34:22کیا مجال کہ ان پر آگ کا ذرا بھی اثر ہو
00:34:24سب سے زیادہ حیرانی اور خوشی
00:34:26بے گناہ لڑکی کو رہی تھی
00:34:28وہ جو کچھ دیکھ رہی تھی
00:34:29اسے اپنے آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا
00:34:32اب اسے معلوم ہوا تھا
00:34:33کہ اس سنہری بالوں والے نوجوان نے
00:34:34اس کے سر کا بال نوچتے ہوئے کیا کہا تھا
00:34:37تو کیا وہ بچ جائے گی
00:34:39اس کی آنکھوں کے آنسوں خوشک ہو گئے
00:34:41اور وہ انتہائی تجب کے ساتھ
00:34:43پجاریوں کو آگ جلانے میں ناکام ہوتے دیکھ رہی تھی
00:34:46ایک پجاری نے زور سے کوئی منتر پڑے اور کہا
00:34:49دیوتا ہم سے کسی بات پر ناراض ہیں
00:34:51لاش کو یہی رکھا جائے
00:34:52اسے کل آگ کے سپورت کیا جائے گا
00:34:54اس لڑکی کو بھی اسی جگہ زنجیروں میں
00:34:56جکڑا ہوا رہنے دیا جائے
00:34:58باقی لوگوں نے پجاری کی بات پر ہاں کہہ دی
00:35:00اور سارے لوگ تاجر کی لاش اور لڑکی
00:35:03کو وہیں چتہ پر چھوڑ کر واپس چلے گئے
00:35:05اس جگہ صرف چار آدمی پہرہ دینے کے لیے
00:35:07رہ گئے امبر ایک جگہ کھڑا
00:35:08یہ سارا تماشا دیکھ رہا تھا
00:35:10اس نے ٹیلے کی اوٹ میں جا کر بلتیز کی بہن کو
00:35:12ایک بار پھر اور پوچھا کہ اب کیا ہوگا
00:35:15اور یہ لڑکی اگلے زورز کیسے بچے گی
00:35:16بلتیز کی بہن نے کہا یہ کام اب تمہیں کرنا ہے
00:35:19میں جو کر سکتی تھی میں نے کر دیا
00:35:21اب باقی تمہارا فرض ہے تم کرو
00:35:23دیوتا نگبان ہو اور اتنا کہہ کر
00:35:25بلتیز کی بہن غائب ہو گئی
00:35:27امبر وہاں اکیلہ رہ گیا وہ سمجھ گیا کہ دیوی
00:35:29یہاں مجبور ہے اگر وہ کچھ کر سکتی
00:35:31تو ضرور مدد کر دی
00:35:32بہرحال امبر نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس لڑکی کو
00:35:35اکیلا ہی مقابلہ کر کے بچائے گا
00:35:37وہ کاروان سرائے میں آ گیا
00:35:39سارا دن وہ کمرے میں بیٹھا غور کر ترہ
00:35:41کہ کس طریقے پر عمل کیا جائے
00:35:42شام ہو گئی اور پھر رات ہو گئی
00:35:45اور شہر میں کہیں کہیں مشل جل اٹھی
00:35:47امبر چپکے سے سرائے سے باہر نکلا
00:35:49اور اس میدان میں آ گیا
00:35:50جہاں چتہ پر ایک لاش اور ایک زندہ لڑکی
00:35:53زنجیروں میں جگڑی پڑی تھی
00:35:54وہ ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہو گیا اور جائزہ لینے لگا
00:35:57کہ پہرے دار پجاری کیا کر رہے ہیں
00:35:58یہ چاروں پہرے دار بڑے ہٹے کٹے تھے
00:36:01اور ننگی تلواریں ہاتھ میں لیے
00:36:02چتہ کے ارد کرد گھوم پھر کر پہرہ دے رہے تھے
00:36:04لڑکی بچاری انتہائی
00:36:06بیبسی کی حالت میں چتہ پر لیٹی سسکیاں بھار رہی تھی
00:36:09امبر کو اس پر بہت درس آیا
00:36:11اس نے دلی دل میں ایک ترکیب سوچی
00:36:13اور درخت کی اوٹ میں سے نکل کر
00:36:14چتہ کے پاس آ کر رک گیا
00:36:15پہرے دار پجاریوں نے اس کی طرف دیکھا
00:36:18مشل کی روشنی میں ان کی سرخ آنکھیں
00:36:21انگاروں کی مانیں تہک رہی تھی
00:36:22بڑے پجاری نے پوچھا
00:36:23کون ہو تم یہاں کیا کرنے آئے ہو
00:36:25امبر نے کہا
00:36:25میں اس لڑکی کو بچانے آیا ہوں
00:36:27امبر نے یہ بات بلکل صاف ہی کہہ دی
00:36:30پجاری اسے میں سرخ ہو گئے
00:36:32بڑے پجاری نے تلواری ہاتھ اوپر اٹھاتے ہو کہا
00:36:34اگر ایک قدم بھی آگے بڑھایا
00:36:36تو گردن کاٹ کر پھینک دوں گا
00:36:38لڑکی نے گردن موڑ کر دیکھا
00:36:40مشل کی روشنی میں اس نے نوجوان کو پہچان لیا
00:36:42مگر اسے دل ہی دل میں افسوس ہوا
00:36:44کہ اب اس نوجوان کے اوپجاری تلواریں مار مار کر حیلا کر دیں گے
00:36:47امبر نے مسکرا کر کہا
00:36:49شاید تم لوگوں کی موت میرے ہاتھ لکھی ہے
00:36:52تم میں سے جس کسی نے بھی تلوار اٹھائی
00:36:54وہ اپنی تلوار سے خود ہی قتل ہو جائے گا
00:36:56بڑے پجاری نے کہہ کر لگایا اور گرج کر کہا
00:36:59اے کمینے ڈاکو
00:37:00تو اپنے آپ کو کوئی جدوگر سمجھتا ہے
00:37:02لے میرا وار بچا
00:37:03اس کے ساتھ ہی پجاری نے تلوار وار ہاتھ
00:37:05امبر کی گردن پر بڑے زور سے مارا
00:37:07تلوار پجاری کے ہاتھ سے چھوٹ کر
00:37:10فضا میں بلند ہوئی
00:37:11اور پھر آندی جیسی تیزی کے ساتھ آ کر
00:37:13پجاری کے سینے میں پیوست ہو گئی
00:37:14پجاری نے ایک بھیانک چیخ ماری اور خون میں
00:37:17لطپت زمین پر گر کر ترپنے لگا
00:37:19چتہ پر لیٹی ہوئی لڑکی حیرت میں
00:37:21ڈوب کر نوجوان کو دیکھنے لگی
00:37:23دوسرے پجاری کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں
00:37:26انہوں نے اپنی اپنی تلواریں پھینکی
00:37:28اور دم دبا کر وہاں سے بھاگ گئے
00:37:29پجاری تھوڑی دیر بعد
00:37:31اپنے کے بعد تھنڈا ہو گیا
00:37:32امبر لپک کر چتہ کی طرف گیا
00:37:35اور اس نے فوراں اس کی زنجیریں کھولنی شروع کر دی
00:37:37لڑکی خوفزدہ سی ہو کر
00:37:39اپنے بچانے والے کی طرف دیکھ رہی تھی
00:37:41وہ اسے کوئی بہت بڑا جادوگر سمجھ رہی تھی
00:37:43جو جب اور جس وقت چاہے دوسرے انسان کو ہلاک کر سکتا ہے
00:37:47امبر نے لڑکی کو آزاد کرتے ہوئے کہا
00:37:49یہاں سے ہمیں جلدی بھاگ جانا چاہیے
00:37:51پجاری دوسرے لوگوں کو لے کر یہاں پہنچ رہے ہوں گے
00:37:54لڑکی بکھلائی ہوتی
00:37:56اسے ایک دم نئی زندگی مل گئی
00:37:58اگر یہ نوجوان اس کی مدد کو نہ آتا
00:37:59تو وہ جل کر راک ہو چکی ہوتی
00:38:01امبر اسے ساتھ لے کر وہاں سے ٹیلے کی طرف بھاگ اٹھا
00:38:04ٹیلے کی دوسری جانب ایک ڈھلانتی
00:38:06جو ایک خوشک نالے میں اتر گئی تھی
00:38:07وہ دونوں اس نالے میں آ کر ایک طرف کو بھاگنے لگے
00:38:10کافی دور بھاگتے رہنے کے بعد
00:38:12لڑکی تھک گئی
00:38:13وہ ایک جگہ دم لینے کے لیے بیٹھ گئے
00:38:15جب ان کا سانس ٹھیک ہوا تو امبر نے لڑکی سے پوچھا
00:38:17مگر ہم جا کہا رہے ہیں
00:38:19میں اس شہر میں اجنبی ہوں
00:38:20تم کہاں کی رہنے والی ہو
00:38:22کیا اس شہر میں تمہاری کوئی ایسی عورت واقع ہے
00:38:25جہاں تم چھپ سکو
00:38:26کہنے لگی یہ شہر میرا دشمن ہے
00:38:28میں جس کے بھی پاس گئی
00:38:30وہ مجھے پکڑ کر پجاری کے حوالے کر دے گا
00:38:32ہاں یہاں سے ایک دن اور ایک رات کے فاصلے پر ایک گاؤں ہے
00:38:35اس گاؤں میں میری ایک سہیلی رہتی ہے
00:38:38وہیں ہمیں پناہ مل جائے گی
00:38:39تو چلو وہیں چلتے ہیں
00:38:40لڑکی نے امبر سے کہا
00:38:41مگر تم میرے ساتھ کہاں مارے مارے پھیروگے
00:38:44میری خاطر تو اپنی زندگی خطرے میں کیوں ڈالتے ہو
00:38:46بہتر یہی ہے کہ مجھے میرے حال پر چھوڑ دو
00:38:49نہیں میں نے تمہارا بازو تھاما ہے
00:38:51تو اب میں تمہاری منزل تک تمہیں پہنچا کر دم لوں گا
00:38:54یہاں ٹھہرو میں کہیں سے گھوڑوں کو بندبست کرتا ہوں
00:38:57امبر وہاں سے اٹھ کر ایک قریبی دہات میں گیا
00:38:59وہاں ایک خیت میں دو گھوڑے بندے ہوئے تھے
00:39:02امبر نے دونوں گھوڑوں کو کھول کے ساتھ لیا
00:39:04انہوں نے دلاتا ہوا وہاں لے آیا
00:39:05جہاں وہ لڑکی اس کا انتظار کر رہی تھی
00:39:07اس نے لڑکی کو گھوڑے پر سوار کر آیا
00:39:09خود بھی سوار ہوا
00:39:10گھوڑے کو ایڑ لگائی اور اس گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے
00:39:14جہاں اس لڑکی کی رازدار سہیلی رہتی تھی
00:39:16امبر اس بدنصیب لڑکی کو اکیلہ نہیں چھوڑنا چاہتا تھا
00:39:21وہ اسے ساتھ لے کر سارا دن اور آدھی رات تک سفر کرتا رہا
00:39:24پھر ان کے گھوڑے اور وہ خود بھی تھک گئے
00:39:26اور آرام کرنے کے لیے ایک جگہ ریت کے ٹیلے کے سائے میں بیٹھ گئے
00:39:29امبر نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ کون ہے
00:39:32اور اس تاجر کے ساتھ کیسے بہائی گئی تھی
00:39:34جبکہ وہ تاجر تو بہت بڑا تھا اور وہ جوان ہے
00:39:37لڑکی نے آنکھوں میں آنسو بھر کر کہا
00:39:39میرے ہمدرد نوجوان
00:39:40تم نے میری جان بچا کر مجھے ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا لیا
00:39:44میں ایک نہائیت غریب ماں باپ کی بیٹی ہوں
00:39:46میرے ماں باپ کاشتکار ہیں
00:39:48اور ایک زمیندار کی زمین کاشت کر کے
00:39:50اپنا اور میرا پیٹ پال رہے ہیں
00:39:52زمیندار کا کرزہ بہت زیادہ ہو گیا
00:39:54تو اس نے دھمکی دی کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر
00:39:57اس کا کرز ادا نہ کیا
00:39:58تو وہ ہمارے مکان کو آگ لگا دے گا
00:40:01اور میرے ماں باپ کو ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنا لے گا
00:40:03اس پر میرے ماں باپ رونے لگے
00:40:05مہینجہ و دڑوں کے اس تاجر نے مجھے دیکھا
00:40:08چنانچہ اس نے ایک لونڈی کے ہاتھ پہ غام بھیجا
00:40:10کہ اگر میری شادی اس سے کر دی جائے
00:40:12تو وہ میرے ماں باپ کا سارا کرز اتار دے گا
00:40:15پس میرے ماں باپ شادی کرنے پر مجبور ہو گئے
00:40:17اس سے بڑا ظلم اور نہیں ہو سکتا
00:40:20ظلم تو یہ تھا کہ تاجر مرنے کے بعد
00:40:22مجھے یہاں کی رسم کے مطاوق مجبور کیا جاتا رہا
00:40:25کہ میں بھی بوڑے خاون کے ساتھ زندہ آگ میں جل مروں
00:40:27میرے ماں باپ کو اس کا کچھ علم نہیں
00:40:29اگر انہیں علم ہوتا کہ ان کی بیٹی آگ میں
00:40:32اپنے مرے ہوئے خاون کے ساتھ زندہ جلا گئی
00:40:34تو وہ اس صدمے سے زندہ نہ رہ سکتے
00:40:36مگر میں دیوتاؤں کی مہربانی اور تمہاری
00:40:39ہمدردی اور بہادری کا شکریہ دا کرتی ہوں
00:40:41کہ میں اس آفت سے بچ نکلی
00:40:43اور آج اپنے ماں باپ کے پاس زندہ سلامت جا رہی ہوں
00:40:47یہ تمہاری خوش قسمتی ہے
00:40:48کہ اس روز سیر کر رہتے کراتے میں ادھرہ نکلا
00:40:50ورنہ میرے لئے تمہیں بچانا ناممکن تھا
00:40:53لڑکی نے ذرا تاجب کے ساتھ پوچھا
00:40:55اچھا یہ بتاؤ کہ میری جتا کی لکڑیوں کو آگ کیوں نہیں لکھ لی
00:40:58کیا تم نے کوئی جادو کیا تھا
00:41:01کیا تم جادو گر ہو
00:41:02تم نے یہ جادو کہاں سے ذیکھا
00:41:03تم اس سے انکار نہیں کر سکتے
00:41:05اس لیے کہ میں نے تمہارے جادو کو اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے
00:41:08امبر میں سوج میں پڑ گیا
00:41:10کہ اس بھولی بھولی لڑکی کو کیا جواب دے
00:41:12وہ اسے ہرگز ہرگز نہیں بتانا چاہتا تھا
00:41:14کہ وہ ہزاروں سالوں سے زندہ چلا آرہا ہے
00:41:16اور یہ کہ وہ مصر کے فیرون کا بیٹا ہے
00:41:19یا یہ کہ اس کی مدد بلتیس کی پہننے کی
00:41:21اس نے مسکرا کر کہا
00:41:23میں نے کوئی جادو نہیں کیا
00:41:25لکڑیاں ہی گیلیں تھیں جس کی وجہ سے انہیں آگ نہ لگ سکیں
00:41:27لڑکی نے کہا یہ غلط ہے
00:41:29لکڑیاں بے حد خوشک تھی
00:41:31میں خود لکڑیوں پر لٹیوں تھی
00:41:40جادو کیا ہے مجھ سے چھپا رہے ہو
00:41:41تم بہت بڑے جادوگر ہو
00:41:42آخر تمہیں سچ کہنے میں کیا ہچکچاٹ ہے
00:41:45امبر کہنے لگا
00:41:45تمہیں عام کھانے سے مطلب ہے یا پیڑ گننے سے
00:41:48تمہاری زندگی بچ گئی تمہارے لئے کافی ہے
00:41:50خواہ یہ جادو کے زور سے ہوا یا کسی اور وجہ سے
00:41:53میرا خیال ہے کہ تمہیں اس بارے میں زیادہ
00:41:55کرید کرید کرنے کی ضرورت نہیں
00:41:57جیسے تمہاری مرضی
00:41:58اگر تم نہیں بتانا چاہتے تو نہ سہی
00:42:01ویسے میں نے خواہ میں دیکھا تھا
00:42:03کہ میں آگ میں ڈالی جا رہی ہوں
00:42:04اور کسی نے آ کر مجھے بچانیا
00:42:05آج میرا خواہ پورا ہو گیا
00:42:07تمہیں رب کا شکر ادا کرنا چاہیے
00:42:10مگر میں تو اپنے دیوتاؤں کی شکر گزاروں
00:42:12جنہوں نے میری جان بچانے کے لئے تمہیں بھیج دیا
00:42:14امبر نے کہا
00:42:15یہ تمہارا وہم ہے
00:42:17تمہیں تمہارے دیوتاؤں نے نہیں بچایا
00:42:19بلکہ میرے رب نے بچایا
00:42:20دیوتا اگر تمہیں بچانا چاہتے
00:42:22تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں پکڑ کر
00:42:24زنجیروں میں جکڑ سکتی تھی
00:42:25دیوتا بچارے تو خود مجبور ہیں
00:42:28وہ کسی انسان کی کیا مدد کریں گے
00:42:30لڑکی نے گھبرا کر کہا
00:42:31ایسا نہ کہو
00:42:32دیوتا ناراض ہو گئے
00:42:34تو وہ پھر مجھے آگ کے اندر جھونک دیں گے
00:42:36میری بات ماننو لڑکی
00:42:37دیوتاؤں نے تمہاری کوئی مدد نہیں کی
00:42:40جو بدھ پتھر کا ہے
00:42:41اور اپنے ہاتھ سے اپنے ناکور بیٹھی ہوئی
00:42:43مکھی نہیں اڑا سکتا
00:42:44وہ تمہاری کیا مدد کرے گا
00:42:46یہ میرا رب عظیم ہے
00:42:47جس نے تمہاری فریاد سنی
00:42:48اور تمہاری مدد کے لیے
00:42:50مجھے وہاں بھیج دیا
00:42:50کیا رب دعا سنتا ہے
00:42:52کیوں نہیں
00:42:53وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے
00:42:55وہ اس کی بھی دعا سنتا ہے
00:42:57جو تم اپنے دل میں دھوراتی ہو
00:42:58اور جس کا ایک لفظ بھی زمان پر نہیں لاتی
00:43:00کیا رب کا کوئی بت بھی ہے
00:43:02نہیں
00:43:03اس کا کوئی بت نہیں
00:43:04اس کی ذات تمام بتوں کو توڑ دیتی ہے
00:43:07جس نے رب سے محبت کی
00:43:08اس نے تمام بتوں کو دل سے مٹا دیا
00:43:10میں چاہتا ہوں کہ تم بھی ایک رب پر ایمان لے آؤ
00:43:13اس میں تمہاری اور ہم سب کی نجات کا راستہ پوشیدہ ہے
00:43:16میں تمہارے رب پر ایمان لاتی ہوں نوجوان
00:43:18مگر مجھے یہ بتاؤ کہ میں رب کی عبادت کس طرح کیا کروں
00:43:22تم رب کی عبادت اپنے ماں باپ کی خدمت کر کے
00:43:25اپنے بہن بھائیوں سے پیار کر کے
00:43:27دکھی لوگوں کی مدد کر کے
00:43:29اور بھولے بھٹکوں کو راستہ دکھا کر
00:43:30اور ہمیشہ سچ بول کر
00:43:32اور اپنے دماغ کو ہمیشہ پاکیزہ رکھ کر کر سکتی ہو
00:43:35اس لیے کہ رب کو
00:43:36عظمت سچائی اور پاکیزگی بسان دے
00:43:38ہم اس کی عظمت سچائی اور پاکیزگی
00:43:41کا خیال تک نہیں کر سکتے
00:43:42ہم صرف اس کی عبادت اسی صورت میں کر سکتے ہیں
00:43:45کہ اپنے خیالات اور دماغ کو
00:43:47سچے خیالات اور نیک خواہشات سے
00:43:49برا ہوا رکھیں کبھی جھوٹ نہ بولیں
00:43:51کسی سے نفرت نہ کریں
00:43:53برے خیالات دل میں نہ لائیں
00:43:54کسی سے حسد نہ کریں
00:43:55خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں
00:43:58اور پریشان حال لوگوں کی ہمیشہ مدد کریں
00:44:00تمہاری باتیں میرے دل پر اثر کر رہی ہیں نوجوان
00:44:04میں تمہارے خودائے واحد پر ایمان لاتی ہوں
00:44:06اور اپنے دل میں بنے ہوئے
00:44:08سارے پتھر کے بتوں کو توڑ رہی ہوں
00:44:10اس میں کوئی شک نہیں
00:44:11کہ رب ہی ساری دنیاوں کا رب ہے
00:44:13اور وہی حسدی عبادت اور شکرانے کے لائق ہیں
00:44:16مجھے تم سے یہی امید تھی
00:44:18رب تمہارے ارادوں کو طاقت بخشے
00:44:20اور تمہیں نیکی پریزگاری
00:44:21سچائی اور پاکیزہ خیالات کی توفیق ادا فرمائے
00:44:25تھوڑی دیر باتیں کرنے کے بعد سو گئے
00:44:27مو اندھیرے امبر کی آنکھ کھل گئی
00:44:29اور اس نے دیکھا
00:44:30کہ سہرا کا ایک خودرناک اور بہت زہریلا سام
00:44:33لڑکی کی گردن کے گرد کنڈلی مارے بیٹھا ہے
00:44:36اور لڑکی بیچاری کا پسین اب چھوٹ رہا ہے
00:44:39وہ تھر تھر کام رہی تھی
00:44:40مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی
00:44:42اس کی آنکھیں خوف اور تہشت سے اُبل کر باہر آ گئے تھی
00:44:45اس نے اشانو اشانو میں امبر کی طرف دیکھ کر
00:44:47پھر آسمان کی طرف دیکھا
00:44:49گویا کہہ رہی ہو
00:44:50میرے لیے اپنے رب سے دعا مانگو
00:44:52اس سے میری زندگی کے لیے مدد مانگو
00:44:54امبر پریشان ہو گیا
00:44:55اسے یہ بھی خیال تھا
00:44:57کہ لڑکی کا رب واحد پر ایمان ڈگ مگانا جائے
00:44:59اور کہیں وہ یہ سوچنے پر مجبور نہ ہو جائے
00:45:01کہ اپنے دیوتاؤں کی توہین کرنے
00:45:03اور رب واحد پر ایمان لانے کی وجہ سے
00:45:05اس کے ساتھ ایسا ہوا
00:45:06زہریلا سامپ اپنی پتلی پتلی زہریلی دو شاخہ
00:45:09زبان نکال کر پھنکاریں مار رہا تھا
00:45:12وہ لڑکی کو ڈسنے کی تیانیاں کر رہا تھا
00:45:14امبر کو چھچ کچایا
00:45:15اس لیے کہ خواہ ہمیشہ کی زندگی اسے مل چکی تھی
00:45:18لیکن سامپ کو ہاتھ لگاتے
00:45:20وہ ہمیشہ گھبرا جایا کرتا
00:45:21اس لیے اس کا زہر ایک سیکنڈ کے اندر اندر
00:45:23سارے جسم میں سرائیت کر جاتا ہے
00:45:25ایک بار پہلے بھی امبر کو ایک سامپ نے
00:45:27ڈس لیا تھا وہ مرا تو نہیں تھا
00:45:29لیکن دو دن تک اس کا سارا بدن
00:45:31زہر کے اثر سے انگارے کی طرح پھنکتا رہا
00:45:34اس نے لڑکی کی آنکھوں میں آنکھیں
00:45:36ڈال کر کہا گھبرانا نہیں
00:45:37خاموش بہیس و حرکت لیٹی رہو
00:45:39اور خدای واحد سے دعا مانگو
00:45:41کہ وہ ہماری مدد کر دے
00:45:42مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں کروں گا
00:45:44لڑکی نے امبر کی باتوں کا کوئی جواب تو نہ دیا
00:45:46لیکن اس کی آنکھوں میں ایک احساس تھا
00:45:49وہ صبح کچھ سمجھ رہی تھی
00:45:50اور جس طرح وہ کہے گا اسی طرح عمل کرے گی
00:45:52لڑکی کا خدایہ پر ایمان ایک ہی رات میں
00:45:54بہت بختہ ہو گیا تھا
00:45:56اس نے آنکھیں بند کر لی
00:45:57اور خدا سے دعا مانگنے لگی
00:45:58کہ وہ اس پر اپنا رحم کرے
00:46:00اور اس کی جان بچا لے
00:46:01اور اسے ماں باپ اور بہن بھائیوں تک زندہ پہنچا دے
00:46:04کیونکہ اسے معلوم تھا
00:46:06کہ اگر سام نے اسے ایک بار بھی ڈس لیا
00:46:07تو وہ زہر کے اثر سے فوراں ہلاک ہو جائے گی
00:46:10امبر نے سام کی چھوٹی چھوٹی جادو بری آنکھوں میں
00:46:12آنکھیں ڈال کر اسے گھرنا شروع کر دیا
00:46:14وہ چاہتا تھا کہ سام کو ڈسنے کا موقع نہ دے
00:46:17اس لیے وہ دو روز اس سہرہ میں بخار چڑھا کر لیٹا نہیں چاہتا تھا
00:46:21اس کے پاس ایسی کوئی دوائی بھی نہیں تھی
00:46:23جسے پی کر وہ بخار سے نجات حاصل کرتا
00:46:25امبر نے سام کی آنکھوں میں گھوٹے ہوئے چپکے سے
00:46:28اپنا ایک ہاتھ سام کی طرف بڑھانا شروع کر دیا
00:46:30ساتھ ہی ساتھ وہ دو انگلیوں کو بھی ہلا رہا تھا
00:46:33کیونکہ اسے معلوم تھا کہ سام اس کی حرکت پر توجہ دے گا
00:46:36وہ آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ کو سام کے بلکل پانس لے گیا
00:46:39سام نے اپنا سر اٹھا رکھا تھا اور پتلی پتلی زبان بار بار پھنکار رہا تھا
00:46:50لڑکی کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور دہشت سے اس پر لرزہ تاری تھا
00:46:54اس کی آنکھیں باہر کو نکلی جا رہی تھی
00:46:57امبر نے یہ سوچ کر کہ کہیں خوف سے لڑکی کا دل دھڑکنا بند نہ ہو جائے
00:47:01اسے آہستہ سے سرگوشی جیسے لہجے میں کہا
00:47:03گھبراو نہیں حوصلہ رکھو تم مر نہیں سکتی
00:47:06اس جملے نے لڑکی کو ایک نیا حوصلہ عطا کیا
00:47:09وہ اپنے اندر ایک نئی طاقت محسوس کرنے لگی
00:47:12امبر نے اپنے ہاتھ سے کوئی ایک گز کے فاصلے پر لے جا کر روک دیا
00:47:16اب سامپ اور امبر دونوں ماہر جادو گروں کی طرح ایک دوسرے کو گھور رہے تھے
00:47:20سوال یہ تھا کہ پہلے حملہ کون کرتا ہے
00:47:23اس وقت اگر سامپ حملہ کر دیتا تو امبر کو کٹ کر وہ دو دن کے لیے
00:47:26شدید بخار میں مبدلہ کر سکتا تھا
00:47:29اور اگر امبر پہل کر دے تو وہ سامپ کو کابو کر سکتا تھا
00:47:32چنانچہ یہی ہوا امبر نے پہل کر دی
00:47:34اس نے ایک دم اپنا ایک ہاتھ سامپ کی طرح بڑھایا
00:47:38اور ایک ہی جھٹکیں اس کی گردن دبوچ لی
00:47:39سامپ اس کی گرفت میں ترپنے پھڑکنے اور اپنے جسم کو سو سو بل دینے لگا
00:47:44اس نے لڑکی کی گردن چھوڑ کر امبر کے بازو کے گرد اپنا سارا جسم لپیٹ لیا
00:47:49سامپ میں بڑی طاقت تھی
00:47:50امبر کو اپنا ہاتھ ٹوٹتا ہوا محسوس ہوا
00:47:53اس کی انگلیوں میں خون کی گردی سست پڑھنے لگی
00:47:56اس نے لڑکی سے کہا جلدی سے کوئی پتھر لاؤ
00:47:58لڑکی جو ایک منٹ پہلے سہر سخ خوف کے علم میں ریت پر چت لیٹی تھی
00:48:03امبر کو مسئیبت میں پھنسا دے کر فوراں اٹھی
00:48:05اور ادھر ادھر بھاگ دوڑ کر وہ کہیں سے ایک گول سا پتھر اٹھا لائی
00:48:08امبر نے کہا کہ وہ پتھر اس کے پاس پھینک دے
00:48:12لڑکی نے آہستہ سے پتھر امبر کے پاس پھینک دیا
00:48:14سامپ اتنا طاقتور تھا کہ امبر نے زندگی میں کبھی اتنا طاقتور سامپ نہیں دیکھا تھا
00:48:20یہ امبر ہی کا کام تھا کہ وہ ابھی تک سامپ کی طاقت کو سنبھلے ہوئے تھا
00:48:24ورنہ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا
00:48:25تو سامپ کب کا اس کی کلائی توڑ کر اسے ڈس چکا ہوتا
00:48:28یہ اس قسم کا سامپ تھا کہ جس کا کاٹا پانی نہیں مانگتا تھا
00:48:32یعنی اس آدمی کو اتنی بھی محلت نہیں ملتی کہ وہ اتنا ہی کہہ سکے کہ مجھے پانی دو
00:48:36پتھر کے قریب کھسک کر امبر نے سامپ کی سیری کو اس پر رکھ کر اوپر سے اپنا پاؤں رکڑنا شروع کر دیا
00:48:42سامپ کی گرفت ڈھلی ہو گئی اور وہ مردہ ہو کر امبر کے ہاتھ میں لٹکنے لگا
00:48:47امبر نے اتمنان کا گہرہ سانس لیا اور مردہ سامپ کو ریت کے اندر دفن کر دیا
00:48:51اس نے لڑکی سے کہا خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہاری جان بچائی
00:49:02ذاتِ واحد کا شکر ادا کرنا چاہیے مگر یہ بتاؤ تم نے سامپ کو ریت کے اندر دفن کیوں کیا
00:49:07اسے باہر نہیں دیتے تاکہ کوئی گد اس کو کھا کر اپنا پیٹ بھار لے
00:49:11میں ایک حکیم ہوں یاد رکھو لڑکی اگر کبھی سامپ کو مارو تو اسے فوری طور پر زمین میں گڑا کھوٹ کر دفن کر دو
00:49:18کیونکہ اگر کسی مردہ سامپ کو کسی کتے بلے یا گد نے کھا لیا
00:49:22تو وہ اس کے زہر کے اثر سے پاگل ہو جائے گا
00:49:25اور جس انسان کو کٹے گا وہ بھی پاگل ہو جائے گا
00:49:28آؤ اب اپنا سفر چاری رکھتے ہیں
00:49:30مجھے چھوڑ کر واپس تمہیں مہنجو دڑو آ کر وہ کام کرنا ہے جس کے لیے میں یہاں آیا ہوں
00:49:34خدای واحد کے لیے ایسا نہ کرنا
00:49:36مہنجو دڑو واپس نہ جانا
00:49:38اگر انہوں نے تمہیں دیکھ لیا تو تمہاری گردن اتار دیں گے
00:49:41وہ لوگ تو پہلے سے ہی تمہاری تلاش میں ہوں گے
00:49:43میں ان سے خوف زدہ نہیں ہوں لڑکی
00:49:45میں اگر ڈرتا تو صرف اپنے رب سے ڈرتا ہوں
00:49:48مجھے کسی کی پرواہ یا خوف نہیں
00:49:50ویسے بھی پجارین رات کے اندھیرے میں میری شکل کو غور سے نہیں دیکھا تھا
00:49:54وہ مجھے بالکل پہچان نہیں سکیں گے
00:49:56جیسے تمہاری مرضی لیکن اپنی جان کی حفاظت کرنا
00:49:59ہر انسان کا فرض ہے اور دیوتا بھی معاف کرنا
00:50:01امبر ہنس پڑا کوئی بات نہیں شروع شروع میں ایسا ہو جائے کرتا ہے
00:50:05ایک بات میں تمہیں کھول کر کان بتا دیتا ہوں
00:50:07کہ جس انسان کو خدا واحد پر بھروسہ اور ایمان ہو جاتا ہے
00:50:11وہ دنیا کے ہر خوف ڈر اور غم سے نجات حاصل کرتا ہے
00:50:14یہ صرف ایک فکرہ نہیں بلکہ آزمائی بات ہے
00:50:17ساری تاریخ اس کی گواہ ہے
00:50:19اس لیے تم میرے بارے میں ہر کس فکر نہ کرنا
00:50:21اب سہرہ میں صبح کو ہلکہ ہلکہ اجالہ پھیلنے لگا
00:50:24انہوں نے چشمے پر موہت دھویا
00:50:26اور گھوڑوں پر سوار ہو کر سفر پر روانہ ہو گئے
00:50:29لڑکی کا گاؤں وہاں سے آدھے دن کی مسافت پر رہ گیا تھا
00:50:33وہ بغیر رکے سہرہ میں سفر کرتے رہے
00:50:34دن کا دوسرا پہر ڈھل رہا تھا
00:50:37کہ دور سے لڑکی کو اپنے گاؤں کے کچھے پکے مکان نظر آئے
00:50:40اس نے خوشی سے چھوم کر کہا میرا گاؤں آ گیا
00:50:42تھوڑی دیر بعد وہ دونوں اس گاؤں میں داخل ہو رہے تھے
00:50:45لوگوں نے لڑکی کو دیکھ کر سلام کیا
00:50:47لڑکی امبر کو لے کر اپنے ماں باپ کے گھر آ گئی
00:50:50لڑکی کے ماں باپ اسے دیکھ کر حیران رہ گئے
00:50:53آتکہ تم اکیلی کیسے آ گئی
00:50:54تمہارا خامد کہاں ہیں
00:50:55یہ نوجوان کون ہیں
00:50:57بابا جان میں ابھی آپ کو ساری کہانی بناتی ہوں
00:50:59لڑکی اپنی ماں سے لپٹ گئی
00:51:01اور پھر اس نے الف سے لے کر یہ تک انہیں ساری دستان سنا ڈالی
00:51:04بوڑے ماں باپ نے امبر کو پیار کے ساتھ کلے لگایا
00:51:07کہ اس نے بہادری سے کام لے کر اسے بچایا
00:51:10اور انہوں نے اسرار کر کے امبر کو روک لیا
00:51:13کہ وہ تھکا ہوا ہے
00:51:13اور ایک دو راتیں ان کے پاس آرام کر کے چلا جائے
00:51:16امبر ان کی بات مان گیا
00:51:18امبر تیسرے روز آتکہ کے ماں باپ سے رخصت ہو کر
00:51:21واپس مہینچو دڑک کی درف چل پڑا
00:51:23وہ دوسرے روز صبح کو وہاں سے کوچھ کر جانا چاہتا تھا
00:51:26مگر آتکہ کے ماں باپ نے اسے ایک روز اور ٹھہرا لیا
00:51:29جاتے ہوئے اس نے آتکہ کے باپ سے کہا
00:51:32آپ کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کو کچھ دنوں کے لیے
00:51:34اپنے کسی رشتدار کے ہاں بھیج دیں
00:51:36کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے مرہوم خواند کے رشتدار
00:51:39پجاریوں کے ساتھ مل کر بادشاہ کے سپائی لے کر
00:51:41اس کی تلاش میں نہ آ جائیں
00:51:42آتکہ کے باپ نے کہا بیٹے
00:51:44ہم دنیا میں اکیلے ہیں ہمارا کوئی رشتدار نہیں
00:51:46ہم اس بچی کو کسی کے ہاں بھجوا دیں گے
00:51:49دیوتا ہم پر مہربان ہوگے وہ اس کی ضرور حفاظت کریں
00:51:52اب امبر ان کو کیا کہتا
00:51:54کہ دیوتا مہربان نہیں ہوئے
00:51:55بلکہ رب عظیم نے ان پر اپنا فضل کیا
00:51:57بہرحال اس نے اتنا ضرور کہا
00:51:59کہ آتکہ کو زیادہ دیر باہر نہ نکلنے دے
00:52:01زیادہ تر اس کو گھر پر ہی چھپا کر رکھیں
00:52:04اتنا کہہ کر وہ واپس مہنجو دلو کی طرف چل پڑا
00:52:07ایک رات اور ایک دن کے سفر کے بعد
00:52:09وہ مہنجو دلو شہر کی سرد میں داخل ہو گیا
00:52:11وہ شہر کے شمال مغربی سراستے سے اندر داخل ہوا تھا
00:52:15اب وہ کاروان سرائے میں نہیں جانا چاہتا تھا
00:52:17کیونکہ اسے معلوم تھا کہ پجاری کے قتل کے سلطلے میں
00:52:20بادشاہ کے سپاہی اس کی تلاش میں وہاں ضرور آئے ہوں گے
00:52:23اس لیے کہ پجاریوں کو سلطنت میں بڑا سرور سوخ تھا
00:52:26اور حکمران شہزاد بڑے پجاری کی بات کبھی نہیں ٹال سکتا
00:52:30ویسے بھی اگر ایک قتل ہو جائے
00:52:39پہچان نہ سکے لیکن یہ محض اس کا وہم تھا
00:52:42ایک پجاری نے اسے مشل کی روشنی میں بڑے غور سے دیکھ لیا تھا
00:52:45اور وہ اسے ہر حالت میں پہچان سکتا تھا
00:52:48اس پجاری کا نام سامبا تھا
00:52:50اور وہ بڑے پجاری کا بیٹا تھا
00:52:52اسے اپنے باپ کے قتل کا بڑا صدمہ تھا
00:52:54اور وہ امبر سے اپنے باپ کے قتل کا انتقام لینا چاہتا تھا
00:52:58وہ جدگر اور نجومی بھی تھا
00:53:00اس نے اپنے نجوم کے علم سے دیکھا
00:53:02کہ اس کے باپ کا قتل مہنجوں دڑوں کے شمال مغربی علاقے میں ایک ایسی جگہ موجود ہے
00:53:07جہاں ایک طلاب بھی ہے
00:53:08اس کا اندازہ اور نجوم کا علم بالکل درست تھا
00:53:12امبر جس جگہ ٹھہرا ہوا تھا وہاں پانی کا ایک چھوٹا سا طلاب بھی تھا
00:53:16پجاری سامبا نے شہر کے تمام طلاب کنارے کے مکانوں کو غور سے دیکھنا
00:53:20اور ان کی خفیہ جاسوسی شروع کر دی
00:53:22اسے شہزادے کی حمایت حاصل تھی
00:53:24وہ جس وقت جاہے امبر کو اپنے باپ کے قاتل کو گرتار کر سکتا تھا
00:53:28تلاش کرتے کرتے آخر ایک روز وہ اس طلاب کے پاس پہنچ گیا
00:53:32جس کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں کچھا مکان تھا
00:53:35یہ مکان ایک غریب کمہار کا تھا
00:53:37امبر اسی مکان میں ٹھہرا ہوا تھا
00:53:39پجاری سامبا سارا دن طلاب کنارے چھپ کر بیٹھا رہا
00:53:43اور انتظار کرتا رہا کہ اندر سے امبر باہر آئے
00:53:45امبر اس کی موجودگی سے بخبر تھا
00:53:48وہ تیسرے پہر کسی ضرورت کے تحت مکان سے نکل کر طلاب کے پاس آیا
00:53:52تو پجاری نے اسے فورا پہچان لیا
00:53:54اس کا چہرہ انتقام کی آگ میں بھڑک اٹھا
00:53:57وگر وہ خاموش رہا اور وہاں سے نکل گیا
00:53:59محل میں آ کر اس نے بڑے پروہی سے بات کی
00:54:01کہ اس نے اپنے باپ کے قاتل کا سراغ لگا لیا ہے
00:54:04اور اب وہ اسے گرفتار کر کے شہزادے کے حاضر پیش کرنا چاہتا ہے
00:54:08تاکہ اس کے باپ کے قاتل کو گرفتار کر کے سزا دی جائے
00:54:11بڑے پروہی نے شہزادے سے بات کی
00:54:13جس نے اسی وقت حکم کیا
00:54:14کہ بڑے پجاری کے قاتل کو طلاب والے مکان سے گرفتار کر کے دربار میں پیش کیا جائے
00:54:19دوسرے روز
00:54:20صبح صبح و امبر نہ ہم نے طلاب آیا
00:54:23تو بادشاہ کی فوج سامنے کڑی تھی
00:54:24پجاری سامبہ ان کے ساتھ تھا
00:54:26ٹھہر جاؤ
00:54:27فوج کے سردار نے کڑ کر کہا
00:54:29ہم تمہیں مہنجے و داروں کے بڑے پجاری کے قتل کے جرم میں گرفتار کرتے ہیں
00:54:34اگر تم نے بھاگنے کی کوشش کی
00:54:36تو ہم تمہیں بھی ہلاک کر دیں گے
00:54:37اور اس گمہار کے مکان کو بھی تحس نحس کر دیں گے
00:54:41امبر کو اپنے ہلاک ہونے کی پروانہ تھی
00:54:43مگر اسے غریب گمہار کا خیال ضرور تھا
00:54:46جس نے اسے ایک مسافر جان کر
00:54:48اپنے مکان میں بنا دی تھی
00:54:49اس نے کہا
00:54:49اگر تم لوگ مجھ پر یقین دلاو
00:54:52کہ اس غریب گمہار کو کچھ نہیں کہو گے
00:54:53تو میں اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتا ہوں
00:54:56فوج کے سردار نے کہا
00:54:57ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں
00:54:59کہ اس گمہار کو کچھ نہیں کہا جائے گا
00:55:01امبر نے دونوں ہاتھ پھیلا کر کہا
00:55:03تو مجھے گرفتار کر لو
00:55:04میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں
00:55:06پجاری سامبہ نے جیخ کر کہا
00:55:08اسے زنجیروں میں جکڑ کر دربار میں پیش کرو
00:55:11سپاہی اپنے سردار کے حکم پر فوراں آگے بڑے
00:55:13اور انہوں نے امبر کو گرفتار کر کے زنجیریں ڈالیں
00:55:16اور گھوڑے پر بٹھا کر محل کی طرف چل پڑے
00:55:18امبر ایک بار پھر گرفتار ہو چکا تھا
00:55:21اب اسے مہنجو دڑوں کے شہزادے اور بادشاہ کے دربار میں پیش کیا جانا تھا
00:55:25امبر بھی یہی چاہتا تھا
00:55:26کہ کسی نہ کسی طرح شاہی دربار تک پہنچے
00:55:28وہ ان چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنا نہیں چاہتا تھا
00:55:31شاہی محل میں داخل ہو کر
00:55:33بڑے پروہیت نے پجاری کے قاتل کو دیکھا
00:55:35تو نفرت سے بولا
00:55:36اس نوجوان نے گھناؤنا جرم کیا ہے
00:55:38اس نے ہمارے دیوتاؤں کے خاص بجاری کو کر لگیا ہے
00:55:41اسے دیوتا کبھی معاف نہیں کریں گے
00:55:43اسے ہم زندہ آگ میں جلائیں گے
00:55:45اسے دربار میں پیش کرو
00:55:47میں بادشاہ شہزادے سے خود کہہ کر اسے آگ میں ڈالوں گا
00:55:50سپاہی زنجیروں سے جکڑے ہوئے امبر کو لے کر
00:55:52شاہی محل کے قید خانے کی طرف چل دیئے
00:55:54یہ قید خانہ محل کے نیچے ایک تنگو تاریخ کوٹلی میں تھا
00:55:58امبر کو اس کوٹلی میں ڈال دیا گیا
00:56:00امبر زمین پر بیٹھ گیا
00:56:01اس نے اپنے خدا واحد کا تصور کیا
00:56:04اور آنکھیں بند کر کے اس کی عبادت شروع کر دی
00:56:06اس عبادت میں وہ اس قدر گم ہو گیا
00:56:09کہ اسے اپنے گردوں پیش کی خبری نہ رہی
00:56:11اسے بالکل محسوس نہ ہوا
00:56:13کہ وہ ایک ایسی جگہ پر قید ہے
00:56:15جہاں ایک پل کے لیے ٹھیلنا بھی مسئیبت ہے
00:56:17خدا سے محبت کرنے میں ایک فائدہ یہ بھی تھا
00:56:20کہ انسان ساری دنیا سے بینیاز ہو کر
00:56:22اپنے ارادے میں پختہ ہو جاتا ہے
00:56:24اور بڑی طاقت عظم اور بڑی لگن کے ساتھ
00:56:26جدو جہد میں مصروف ہو جاتا ہے
00:56:28صبح و امبر کو مہینجو دڑوں کے بادشاہ
00:56:30شہزادے کے سامنے پیش کرنا تھا
00:56:32ادھر تاجر کے رشتہ دار بھی بے خبر نہیں تھے
00:56:35آتکہ نے فرار ہو کر ان کی
00:56:36اور ان کے مردہ رشتہ دار تاجر کی روح کو
00:56:39تکلیف پہنچائی تھی
00:56:40انہوں نے پجاری کے ساتھ مل کر
00:56:41سپاہیوں کے ایک دستہ حاصل کر لیا تھا
00:56:43جو آتکہ کی تلاش میں رات و رات
00:56:45اس کے گاؤں کی طرف روانہ ہو چکا تھا
00:56:48جس وقت مہینجو دڑوں کی سرد میں داخل ہوا تھا
00:56:50مہینجو دڑوں کی شاہی فوج کے سپاہی
00:56:52آتکہ کے گاؤں میں داخل ہو چکے تھے
00:56:54بڑے تاجر کے رشتہ دار ان کے ساتھ تھے
00:56:56انہوں نے فوراں آتکہ کے مکان کا محاصرہ کر لیا
00:56:59یہ لوگ مکان کے اندر داخل ہو گئے
00:57:02بڑے ماوہ اپنے فوج کو دیکھ کر
00:57:03اپنی بیٹی کو ایک بہت بڑے تھنڈے تندور میں چھپا دیا
00:57:06مگر یہ تندور سپاہیوں کی آنکھ سے کیسے بچ سکتا تھا
00:57:09ایک سپاہی نے تندور کے موپر سے
00:57:11گھاس کا گھٹھا اٹھا کر پرے پھینکا اور اندر جھانک کر دیکھا
00:57:14تندور کے اندر لڑکی آتکہ چھپی بیٹھی تھی
00:57:17باہر نکل آؤ
00:57:18تم شاہی مجرم ہو
00:57:19تم نے بادشاہ کے قانون اور اس کے مذہب کی توہین کی ہے
00:57:22ہم تمہیں بادشاہ کے قانون اور
00:57:24لوگوں کے مذہب کے نام پر گرفتار کرنے آئے ہیں
00:57:26سپاہی نے آگے بڑھ کر
00:57:28آتکہ کو اسی وقت گرفتار کر لیا
00:57:30اس کے ماں واپ بے ہوش ہو کر گر پڑے
00:57:32انہیں معلوم تھا کہ اب دنیا کی کوئی بھی
00:57:34طاقت ان کی بیٹی کو زندہ آگ میں جل کر
00:57:36مرنے سے نہیں بچا سکتی
00:57:37لڑکی چیختی چلاتی رہی
00:57:39شور مچاتی رہی مگر اس کی فریاد کسی ننر سنی
00:57:42سپاہیوں نے اسے رسیوں سے
00:57:44باندھ کر اونٹ پر ڈال دیا
00:57:45اور واپس مہنجو دڑوں کی طرف روانہ ہو گئے
00:57:49ساری رات اور سارا دن
00:57:50مسلسل سفر کرنے کے بعد سپاہی لڑکی کو لے کر
00:57:52مہنجو دڑوں پہنچ گئے
00:57:54اور اسے بڑے پروہید کے آگے پیش کر دیا
00:57:56کیونکہ لڑکی نے مذہب کے خلاف
00:57:58جرم کیا تھا اور مذہب کی
00:58:00ٹھیکداری پروہید کے پاس تھی
00:58:01بڑے پروہید نے تنزیہ انداز میں مسکرا کر
00:58:04آتکہ کی طرف دیکھا
00:58:05اب تمہیں محسوس ہو گیا ہوگا
00:58:07کہ ہمارے مذہب کے خلاف گناہ کر کے
00:58:09تم دنیا کے جس کونے میں جا کر چھپ جاؤگی
00:58:11ہمارے دیوتا تمہیں گرفتار کرانے میں
00:58:13ہماری مدد کریں گے
00:58:15لڑکی نے غصے میں کہا
00:58:16تمہارے دیوتا جھوٹے ہیں
00:58:17میرا رب واحد میری مدد کرے گا
00:58:20سارے لوگ دیوتاوں کی توہین سن کر کام گئے
00:58:23بڑے پروہید نے گرج سے کہا
00:58:25کل اس لڑکی کی زبان کھینج لی جائے
00:58:27تم لوگ مجھے جو چاہے سزا دو
00:58:29مگر میں تمہارے دیوتاوں کی ذرہ برابر پروانہیں کرتی
00:58:32تمہارے سارے دیوتا اور ان کے پتھر کے بتھ جھوٹے ہیں
00:58:35سچا صرف میرا واحد رب ہے
00:58:37وہی آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے
00:58:39وہی سورج کو تلو کرتا ہے اور غروب کرتا ہے
00:58:42اسی کے حکم سے ہوا چلتی ہے
00:58:43اور زمین کے نیچے سے درخت کا بیج بودہ بن کر پھوٹتا ہے
00:58:46اسی نے
00:58:47بڑے پروہید نے بات کٹ کر چیخ کر کہا
00:58:50لے جاؤ اس گستا کو اور قید میں ڈال دو
00:58:51سپاہی آتکا کو گھزیٹے ہوئے
00:58:54محل کے قید خانے میں لے گئے
00:58:55اور اسے کال کوٹلی میں لا کر ڈال دیا
00:58:57امبر کو بالکل معلوم نہیں تھا
00:58:59کہ جس جگہ وہ بیٹھا ہے
00:59:00اس سے چار کوٹلیاں چھوڑ کر بیچاری آتکا بھی قید ہے
00:59:03وہ آتکا جس کی زندگی بچانے کے لیے
00:59:06اس نے بے پناہ جرد کا کام کیا تھا
00:59:08اور پجاری کو قتل کر کے
00:59:10اب آگ میں زندہ
00:59:11ڈالے جانے کا انتظار کر رہا تھا
00:59:13ساری رات امبر نے خدا واحد کی عبادت میں گزاری
00:59:16اسے صبح ہونے کی کوئی خبر نہ ہوئی
00:59:18اس لیے کہ اس کوٹلی میں کوئی کھڑکی یا روشندان نہیں تھا
00:59:21دوسری طرف آتکا کو بھی علم نہ ہو سکا
00:59:23کہ صبح ہو گئی ہے
00:59:24اسے یہ بھی معلوم نہ تھا
00:59:26کہ اسے تین کوٹلیاں چھوڑ کر
00:59:28اس کا محسن قید کے عالم میں پڑا ہے
00:59:30امبر کی کال کوٹلی کا دروازہ کھلا
00:59:32اور دو ذرہ پوش سپاہی کلارے کندوں پر رکھے اندر داخل ہوئے
00:59:36اور اسے اپنے ساتھ لے کر باہر نکل گئے
00:59:38دوسری جانب لڑکی کی کال کوٹلی میں بھی سپاہی آئے
00:59:41اور اسے اپنے ساتھ لے کر چلے گئے
00:59:43مہنجو دڑوں کے بادشاہ شہزادے کا دربار لگا ہوا تھا
00:59:47سارے درباری کتار باندے کھڑے تھے
00:59:49بڑا پروہید ہاتھ میں چاندی کا ڈنڈا لیے
00:59:51اس کے سارے کھڑا تھا
00:59:52اس کے سر کے بال موڑے ہوئے تھے
00:59:54کھوپڑی پر ملا ہوا زیتون کا تیل چمک رہا تھا
00:59:57شہزادہ بھی نہیں آیا تھا
00:59:59دربار میں سناٹہ تاری تھا
01:00:00تخت کے پاس ایک سبز
01:00:02نیلے پروں والا مور اپنے پنک پھیلائے رکس کر رہا تھا
01:00:05شہزادے کو مور سے بہت پیار تھا
01:00:07اور وہ ایک مور ہر وقت دربار میں اپنے پاس رکھتا
01:00:10اتنے میں دربار
01:00:11دھول تاشوں اور نفریوں کی آواز سے گونج اٹھا
01:00:13دربار نے بلند آواز میں کہا
01:00:15شہزادہ سلامت تشریف لا رہے ہیں
01:00:17نگاہ روبرو کردن خم
01:00:19آواز گم
01:00:20شہزادہ جاہو شم
01:00:22دیوتاؤں کے پاسبان تشریف لاتے ہیں
01:00:24شہزادہ اپنی خالہ ملکہ کے ساتھ
01:00:26زرک برک لباس میں ملبوس
01:00:28انتہائی قیمتی ہیرے جوانات کا تاج سر پر رکھے
01:00:31دربار میں نمدار ہوا
01:00:32سارے درباری جھک گئے
01:00:34شہزادہ تخت پر آ کر
01:00:36اپنی خالہ ملکہ کے برابر بیٹھ گیا
01:00:37دربار پر ابھی تک سناٹہ تاری تھا
01:00:40بڑے پروہیت نے آگے بڑھ کر سر جھکایا اور کہا
01:00:42حضور پرنور کی خدمت میں
01:00:44بڑے پجاری کے قاتل اور دیوتاؤں کی دوہین کرنے والی
01:00:47لڑکی کو پیش کرنے کی اجازت طلب کرتا ہوں
01:00:50شہزادہ نے ہاتھ کے اشارے سے حکم دیا کہ اجازت ہے
01:00:53بڑے پروہیت نے
01:00:55چاندی کا ڈنڈا ذرا سا زمین پر مارا
01:00:57فوراں ایک دروازہ کھلا اور زنجیروں میں جکڑے ہوئے
01:00:59امبر کو دربار میں لاکر ایک طرف کھڑا کر دیا گیا
01:01:02بڑے پروہیت نے
01:01:03دوسری بار چاندی کے ڈنڈے کو زمین سے ٹکرایا
01:01:05دوسرا دروازہ کھلا اور
01:01:07زنجیروں میں جکڑی آتکا اندر داخل ہوئی
01:01:09امبر اس لڑکی کو اور وہ لڑکی امبر کو
01:01:11دیکھ کر حیران رہ گئی
01:01:12ان کے وہم و گمان بھی نہیں تھا کہ وہ اس حالت میں وہاں ملیں گے
01:01:16امبر کا خیال تھا کہ وہ
01:01:17اکیلہ ہیں اور آتکا کا خیال تھا کہ وہ اکیلی ہیں
01:01:20دربار میں وہ ایک دوسرے سے بات نہ کر سکتے تھے
01:01:23انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو دیکھا
01:01:25اور بے کسی اور مجبوری کی حالت میں سر جھکا لیے
01:01:27بڑے پروہیت نے شہزادے کے تخت کے پاس جا کر
01:01:30ایک بار پھر سر جھکا کر کہا
01:01:32دونوں ملزم حاضن ہے بات سلامت
01:01:34شہزادے نے کہا پہلے اس لڑکی کو پیش کیا جائے
01:01:37جس نے ہمارے مقدس دیوتاؤں کی توہیم کی ہے
01:01:40اور اپنے خامن کے ساتھ زندہ آگ میں
01:01:42نہ جل کر ہمارے مذہب کی خلاف برزی کی ہے
01:01:44بڑے پروہیت نے دربار کی درف دے کر کہا
01:01:47لڑکی کو پیش کیا جائے
01:01:48فوراں دو سپاہی آتکا کو لے کر آگے بڑے
01:01:50اور اسے تخت کے سامنے کھڑا کر کے
01:01:52واپس اپنی جگہ پر چلے گئے
01:01:54شہزادے نے بڑے غور سے آتکا تو وہ دیکھا اور اس سے کہا
01:01:56اے لڑکی تمہارا نام کیا ہے
01:01:58آتکا رب واحد پر ایمان لانے کے بعد
01:02:01امبر نے محسوس کیا کہ لڑکی کی آواز میں
01:02:03روب اور دب دب آ گیا تھا
01:02:05جس طرح دوسرے درباری دربار میں سہمے ہوئے کھڑے تھے
01:02:07آتکا اس کے برخلاف
01:02:09بڑے بہادری اور جرت کے ساتھ کھڑی
01:02:10شہزادے کی آنکھوں میں آکے ڈالے دیکھ رہی تھی
01:02:13شہزادے نے کہا کیا تم بڑے تاجر کی بیوی تھی
01:02:15جی ہاں شہزادہ سلامت
01:02:17کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم نے
01:02:19اپنے مردہ خامد کے ساتھ آگ میں نہ جل کر
01:02:21اس ملک کے مذہب کے خلاف
01:02:23ایک ایسا جرم کیا ہے جسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا
01:02:25میں نے کوئی جرم نہیں کیا
01:02:27شہزادہ سلامت کیا تمہیں معلوم ہے
01:02:29کہ اس جرم کی سزا موت ہے
01:02:30جانتی ہوں شہزادہ سلامت
01:02:32پھر تمہیں موت سے خوف نہیں تھا جو تم نے
01:02:34ہمارے مقدس دیوتاؤں اور مذہب کی توہین کی
01:02:36میں موت سے نہیں ڈرتی شہزادہ سلامت
01:02:39میرا ایمان جس رب عظیم پر ہے
01:02:41وہ ایک نیک انسان کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرتا ہے
01:02:44میں آپ کے جھوٹے دیوتاؤں کی قید سے
01:02:46ازاد ہو چکی ہوں
01:02:47دربار میں موجود شہزادہ اور اس کی خالہ سمیت
01:02:50سبھی لوگ خوف سے لرز گئے
01:02:52ان کے مطابق وہ لڑکی کفر کر رہی تھی
01:02:54شہزادہ نے بڑے پروہید کی طرف دیکھ کر کہا
01:02:56اس لڑکی گستاق کو لے جا
01:02:58اور اس کی کھال کھینچ کر اس میں
01:03:00گھاس بھرو کر شہر کے دروازے میں لٹکا دو
01:03:02جو حکم بادشاہ سلامت
01:03:04بڑے پروہید نے خوش ہو کر کہا
01:03:06اور سپاہی لڑکی کو گھسیٹ دے ہوئے دربار سے باہر لے گئے
01:03:09اب امبر کو دربار میں پیش کرنے کی باری تھی
01:03:11امبر ہر قسم کی
01:03:13مصیبت اور توفان کے لیے تیار تھا
01:03:15مگر وہ اس بے گناہ لڑکی کی تکلیف
01:03:17برداشت نہیں کر سکتا تھا
01:03:18اس نے حسرت بری نظروں سے لڑکی کو دیکھا کہ وہ رو رہی ہے
01:03:21اور وحشی سپاہی اسے گھسیٹ دے ہوئے
01:03:23قیدخانے کی طرف لے جا رہے تھے
01:03:25دوستو یہ کہانے جاری ہے
01:03:27اس کا اگلا حصہ نیکسٹ ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے
01:03:30اس کی چھٹی قصد ہڑپا کا شیشناگ
01:03:32اگلے حالات اس ویڈیو میں ملاحظہ کیجئے
01:03:34جس کا لنک اسی ویڈیو کے نیچے موجود ہے
01:03:36اور ہمارے چینل ہیدر وائس کو سبسکرائب کیجئے
01:03:39نیچے اپنی قیمتی رائے سے ضرور آقا کیجئے
01:03:42شکریہ
01:03:57موسیقی
01:04:27موسیقی
01:04:57موسیقی
01:05:27موسیقی
01:05:57موسیقی
01:05:59موسیقی
01:06:01موسیقی
01:06:03موسیقی
01:06:05موسیقی
01:06:07موسیقی
01:06:09موسیقی
01:06:11موسیقی
01:06:13موسیقی
01:06:15موسیقی
01:06:17موسیقی
01:06:19موسیقی
01:06:21موسیقی
01:06:23موسیقی
Recommended
1:14:49
|
Up next
48:54
28:06
42:23
26:06
32:04
1:32:11
1:03:30
59:22
1:05:46
1:04:21
50:02
1:01:48