SALANA IJTIMA 2015

  • 9 years ago
صوفی محمد شوکت علی قادری میں تحمل بردباری حوصلہ اور بے بایاں ضبط پا یا جاتا ہے۔مخالف کچھ بھی کہے ہمت یے برداشت کی ہے- استقلالی وجودہے- جمالی کیفیت میں کاۃنات کے سرورﷺ کا یہ غلام یہ سفیر دین کی چٹان کیطرح ڈٹا کھڑا نظر آتاہے- محبت شفقت رقت نرم خوئی کا سفر صوفی محمد شوکت علی قادری جب مغلپورہ کے رہنے والے ایک عام بندہ نےحق کا مہفوم پا یا تو اس اطوار بدلےقرینے تبدیل ہوے- نشت و بر خا ست چال ڈھال قول و فعل گفتار کردار سب بدل گئے ٹیکنیکل ہینڈڈ ہے-متری جب انجینئر ریلوے ملازم ارے کہاں کی روحانیت؟ کہاں کی ولایت یہ تو سیدھا سادھا بندہ ہے لیکن گزرے کل کا مستری تصوف روحانیت کےبولٹ کسنے لگا واہ سبحان اللہ ایسی آوازیں تھیں- جوان کی شخصیت کے بارے میں کہی جا رہی تھیں- اور وہ جس نے برائی کے لفظوں ھرفوں کیلئے بند کر لئے تھے اور صدائے حق کہنے سننے کی راہ پنائی تھی- اسے احساس تھا میں بندہ حق میں ہوں- میری ذماداریاں ادائی بندگی کے ضمن میں کیا ہیں؟ لڑکپن سے ہی احساسات اس کے ادراک رکھتے تھے کہ علائق دنیاوی الرکیب الراکب کا مقام کیا ہے- حقیقی شاہسواروں کو کنوتیاں بھر تے سر کش گھوڑے ہی ژیادہ پسند آتے ہیں اسے احساس تھا اگر ابوجہل کی زندگی گزارو گے تو حمزہ جیسی شہادت کی آرزو نہں کی جا سکتی- اس نے سنا ہی نہں بزرگوں سے عملی مشاہدہ کیا تھا کہ فرعون کی زندگی گزار کر موسی کی شان نہں مان سکتے- اس نے خلق خدا کی خدمت مفہوم بندگی پا لی- شریت کے دھارے میں طریقت کے کنارے بٹھ کر بدنی کثافتیں دھونا اور روحانی چشموں سے سیرابی عام بات نہں ہےمگر اب وہ عام نیں رہا تھا- خامیوں کے سامنے زانوے تلمند طے کر نے والے عام کب رہتے ہیں-

اور پھر وہ جو قادری ہوئے جنہیں مرشد کی نادری ضرب حا صل ہوئی- بتوں کو گرانے والی حرص وہوس کے پہاڑ کو گرانے والی مر حب کے قلعہ کہ مسمارکرنے والی قادری ضرب فاران پہاڑوں سے جیلان کی گالیاں بظاہر نظر تو نہیں آتیں مگر باطنی آنکھ دیکھتی ہے اور صاف دیکھتی ہۓ کہ وہی نور وہی صدا جو کائنات کی عظیم ترین ہستی نے عرش سے فرش فرش سے پا تال تک سنائی تھی اس کی سائید کرنے والے یسی میغام کہ پھیلانے والے جیلان کے جیلانی کہ قادری کو قادر مطلق نے قادری سطوت عطا کی اور سلسلہ قادری کی شان و شوکت کا جز و قلیل شوکت علی قارری کو بھی میسر ہے اور خلق خدا فیض یاب ہو رہی ہے شوکت علی قادری کی ابتدائی زندگی سے اب تک کا جائزہ جو کچھ سامنے لاتا ہے اسے حیران کن ضرور کہا جا سکتا ہے- مگر نظر و خبر سے فیض پانے والوں کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں اسی طرح آتی ہیں- نظر اٹھتی ہے مر شد کی اور زاغ و زغن کے درمیاں شہباز چن لیا جاتا ہے مرشد کی نگاہ نے انہیں چنا فطری سونا تھے نگاہ نے سنوارا ابھارا کندان بن گئے مس خام کو کندن بنانے والوں کی عنایت اور درست شفقت ایسے ہی حیران کن کردار ادا کرتی ہے-

صوفی محمد شوکت علی قادری جب ٹیکنیکل کو رسز کر رہے تھے تو فطرت دیکھ کر مسکرارہی تھی کہ انجینئر بننے کی خواہش میں مست الست ہے تو تجھ سے کام کچھ اور لیا جائے گا- تجھے دیکھ کر خدا یاد آجا گا- انسانوں کی روح کے کل پرزوں کے مستری مشینوں کی مرمت کا نقیب بنتا یے تو آجا- اس وادی میں جہاں امن عافیت جزبہ عشق کی فراوانی ہے- جہاں سچ اگلتا ہے اور سچائی کے پھول کھلتے ہیں-عام دنیا سے ہٹ کر یہ وادی یہ دنیا یور ہے-

Recommended